کیا پی ٹی آئی اپنی تنظیمی قوت ضائع کر بیٹھی ہے؟


عدالت کی طرف سے 190 ملین پونڈ مقدمہ میں عمران خان کو سزا سنائے جانے کے بعد پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ جاری اُن مذاکرات کی بساط لپیٹ دی، جن کا مقصد گزشتہ تین سالوں سے ملک کے سیاسی منظر نامہ پر چھائے تناؤ کو کم کرنے کے علاوہ ہموار سیاسی عمل کے ذریعے ٹکریں کھاتی پی ٹی آئی کو دوبارہ سوئے اقتدار لے جانا تھا۔ تحریک انصاف اور گورنمنٹ کے درمیان گزشتہ ماہ شروع ہونے والی بات چیت کا مقصد اُس کشیدگی کو کم کرنا بھی تھا، جو اپریل 2022 میں عمران کو عدم اعتماد کے پارلیمانی ووٹ کے ذریعے ایوان اقتدار سے نکالنے کے بعد بھڑک اٹھی تھی۔

حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کے تین راؤنڈ ہوئے، جس کے دوران پی ٹی آئی نے جو چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا اُس میں ”سیاسی قیدیوں“ کی رہائی کے علاوہ 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے فسادات کی شفاف تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمشن بنانے کا مطالبہ شامل تھا۔ مئی 2023 میں سابق وزیر اعظم خان کی مختصر نظر بندی کے خلاف پی ٹی آئی کارکنوں نے ملک بھر میں ایسے پُرتشدد مظاہروں کا آغاز کیا، جس میں کور کمانڈر ہاؤس لاہور اور جی ایچ کیو سمیت فوجی دفاتر اور دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، دوسرے واقعہ میں 26 نومبر 2024 کو پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا کے وزیراعلی علی امین گنڈا پور اور بشری بی بی کی قیادت میں عمران خان کی رہائی کے لئے حتمی کال کو لے کر اسلام آباد کی ڈی چوک پہ غیر معینہ مدت کے لئے دھرنا دینا چاہا لیکن احتجاج کی حکمت عملی بارے قیادت کے مابین اختلافات کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مظاہرین کو منتشر کر دیا چنانچہ خان کی رہائی کے لئے آخری کوشش کی ناکامی خیبر پختون خوا کے وزیر علی امین گنڈاپور کا واٹرلو ثابت ہونے کے علاوہ بدترین تنظیمی بحران کا سبب بنی۔

عمران خان کا اعتماد کھونے کے بعد علی امین گنڈاپور سے پہلے پارٹی کی صوبائی صدارت کا منصب واپس لینے کے بعد اب وزارت اعلی سے ہٹانے کی بات چل رہی ہے۔ علی ہذالقیاس، موجودہ سیاسی کشمکش کو اگر قومی سیاست کے وسیع تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو فریقین کے درمیان بات چیت کے آغاز کو مثبت قدم سمجھا گیا، جس سے ایک ایسے وقت میں تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کی طرف واپسی کی امید بڑھ رہی تھی جب ملک کو مسلح گروپوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے باعث سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اِنہی مظاہر کو اگر پی ٹی آئی کے تنظیمی نظم و ضبط کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ داخلی خلفشار کا ایسا سنڈروم ہے جو ایک زندہ و توانا سیاسی جماعت کو کبھی نہ تھمنے والے اندرونی انتشار کی طرف دھکیلتا نظر آئے گا۔

امر واقعہ بھی یہی ہے کہ گزشتہ کئی سالوں میں مقتدرہ کے دست مشکل کشا نے پی ٹی آئی کو منظم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا تاہم ایوان اقتدار سے بے دخلی کے بعد عمران خان کی طاقتور شخصیت کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ مخالف عصبیت اس نوزائیدہ جماعت کو ایک نئی شکل میں مربوط بنانے کا وسیلہ بنی۔ سویلین بالادستی، آئین کی حکمرانی اور جمہوری آزادیوں کے احساس سے سرشار، سوچنے سمجھنے والا وہ موثر طبقہ اپنے تعصبات کی تسکین کی خاطر ازخود پی ٹی آئی کی انٹی اسٹیبلشمنٹ تحریک کا حصہ بنتا گیا، جو رائے عامہ پہ اثرانداز ہونے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا تھا، اسی شعوری تنوّع نے رفتہ رفتہ خان کو نظریاتی عقائد کا اسیر بنا کر ”انقلاب“ کے فریب کاریوں میں مبتلا کر دیا لہذا یہی تعلّی عمران خان اور اس کی جماعت کو پاور پالیٹکس کی دل فریبیوں سے نکال کر ریاست کے خلاف جدوجہد کی آزمائشوں کی طرف لے گئی، اس لئے ایوان اقتدار سے نکلنے کے بعد خان نے جس سرعت سے مقبولیت حاصل کی، اسی تیزی کے ساتھ اس کی رومانوی سوچ نے انہیں عملیت پسندی کے تقاضا سے دور کر کے راہ منزل سے بھٹکا دیا، اپنی فطری سہل انگاری کی بدولت وہ مقتدرہ کے خلاف مزاحمت میں الجھنے کے باعث اپنی جماعت کے عہدے اور فائل کے درمیان تنازعات کو نمٹنے کے لئے کوئی ایسا موثر تنظیمی فریم ورک تیار نہ کر سکے جو انہیں داخلی بحرانوں میں الجھنے سے بچاتا، نتیجتاً، حالیہ دنوں میں ملک بھر میں بالعموم اور خیبر پختون خوا میں بالخصوص پارٹی عہدیداروں کے مابین تنازعات ہر جگہ عام ہوتے گئے، دھڑے بندی کے اِسی آشوب نے خان کی مقبولیت کے باوجود پارٹی کے اجتماعی ڈھانچہ کو کمزور کیا اور عمران کے جیل جانے کے بعد ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی مجموعی کارکردگی سکڑتی گئی، یوں خان کی بے مثال مقبولیت، پختون خوا حکومت کی سرکاری مشنری اور لامحدود وسائل میسر ہونے کے باوجود دو چار بڑے مظاہروں کے بعد ہاری ہوئی سپاہ کی طرح پارٹی کارکنان تھک ہار کے بیٹھ گئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پارٹی کے تنظیمی وجود کو سب سے زیادہ نقصان علی امین گنڈاپور کے حتمی تسلط، کوتاہ بینی اور تلخ نوائی نے پہنچایا، گنڈاپور نے پرویز خٹک کے انحراف کے بعد بحران کی دھند میں پارٹی کے صوبائی صدارت سنبھالی تو جماعت کو مربوط رکھنے کی خاطر فعال سیاسی کارکنوں اور عہدیداروں کو میرٹ پہ آگے لانے کی برعکس عاطف خان، تیمور جھگڑا، ارباب آصف، اسد قیصر، جنید اکبر اور کامران بنگش جیسے آزمودہ کار افراد کو ٹھکانے لگانے کے لئے صوبائی اسمبلی کے زیادہ تر پارٹی ٹکٹ نوزائیدہ امیدواروں کو دے کر پارٹی اور اقتدار پہ اپنی گرفت مضبوط بنانے کی کوشش میں تنظیمی ڈھانچے کو پراگندہ کر دیا، اپنی کم صلاحیت کے پیش نظر پارٹی کے نمایاں لوگوں سے خوفزدہ، گنڈاپور، نے پارٹی کے اعلی ترین مقاصد کو پس پشت ڈال کر مبینہ طور پہ اقتدار کو دوام دینے کے لئے خفیہ ڈیل کے ذریعے پہلے جماعتی نصب العین پہ سمجھوتہ کر کے انٹی اسٹیبلشمنٹ جیسے طاقتور بیانیہ کو ملتبس کیا، پھر عمران خان کی مقبولیت اور پارٹی کی اجتماعی جدوجہد کے ذریعے حاصل ہونے والے اقتدار کی ساری توانائیوں کو اپنے خاندان میں مرتکز کر کے دوسری اور تیسری لائن کی لیڈر شپ کو ذاتی غلام اور کابینہ کو گھر کی لونڈی بنا لیا، ساری وزارتیں اور صوبائی حکومت کے تمام سیکریٹریز، رولز آف بزنس کے تحت امور سرکاری نمٹانے کی بجائے، اعیان سلطنت کی طرح امین برادران کی اطاعت گزاری پہ مجبور ہیں چنانچہ بلیک ہول کی مانند فرد واحد میں طاقت کا ارتکاز ایک طرف لامحدود بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کی ہوشربا داستانوں کا موجب بنا تو دوسری طرف خاندانی غلبہ صوبے بھر کی سرکاری مشینری کو مفلوج کر گیا، جس سے خیبرپختون خوا سمیت ملک بھر میں پارٹی کی مجموعی کارکردگی اور سودا بازی کی صلاحیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

گنڈاپور نے خیبرپختون خوا کے مطلق اقتدار پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ پارٹی کو جزئیات تک کنٹرول کرنے کی کوشش میں وہ اس توانا جماعت کے بہترین انسانی سرمایہ کو ناکارہ بنانے کا سبب بھی بنے، خیبر پختون خوا میں ان کی ناقص حکمرانی پہ انگلی اٹھانے کی پاداش میں علیمہ خان اور بشری بیگم پہ سنگ ملامت برسائے گئے، حامی صحافیوں اور یوٹیوبرز کی تذلیل کے علاوہ مرکزی سیکریٹری جنرل سلیمان اکرم راجہ کے خلاف شیر افضل مروت کو لانچ کر کے نئے تنازعات پیدا کیے ، عاطف خان جیسے باصلاحیت اور فعال لیڈر سے پشاور ریجن کی صدارت چھینے کے بعد اسے انٹی کرپشن پولیس کی طرف سے نوٹس بھجوا کر بدنام کیا، لب کشائی کرنے پر شکیل خان کو کابینہ سے نکالا اور تیمور جھگڑا جیسے ٹیکنوکریٹ کو دیوار سے لگا دیا، ارباب آصف، اسد قیصر، مشتاق غنی، ہشام انعام اللہ اور جنید اکبر جیسے باصلاحیت ممبران قومی اسمبلی سمیت پارٹی کے لئے لازوال قربانیاں دینے والے باوقار لیڈروں کی اجتماعی ذہانت کو کام میں لانے کی بجائے ان کی تحقیر کر کے پارٹی کے اندر مستقل آویزش برپا رکھی، اسی شرانگیزی کی بدولت خان کی رہائی کا امکان دور اور پی ٹی آئی کے ایک نئے دھڑے کی تشکیل کا خدشہ بڑھتا گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments