تیسرے آپریشن کا نام تجویز کریں


 اخباری اطلاعات اور گاہے بگاہے سرکاری طور پر جاری ہونے والے بیانات اور خبروں کے مطابق ملک بھر خصوصاً صوبہ پنجاب میں آپریشن ردالفساد جاری ہے اور سینکڑوں مبینہ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کر کے اِنہیں ہلاک یا گرفتار کرلیا گیا ہے۔ قومی سلامتی کے اجتماعی اُمور کے زیرسایہ اس طرح کی خبریں نیگ شکون قرار دی جاتی ہیں اور اِنہیں ایک سانس لیتی ہوئی ریاست کے معمولات کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ لاہور اور سیہون شریف بم دھماکوں سے پیدا شدہ صورت حال میں ردالفساد آپریشن کا اجرا اور پھراس کی کامیابی کا نقطہ عروج پی ایس ایل کے فائنل میچ کا لاہور میں انعقاد تھا۔ اس کے بعد سنا ہے آپریشن تو جاری ہے لیکن اس کی طرف توجہ کی وہ کیفیت نہیں رہی جو کرکٹ میچ کے انعقاد سے پہلے تھی۔ آپریشن ردالفساد کے بارے میں جس طرح کے اعلانات کیے گئے اور رینجرز کی مدد سے جس طرح انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو کچل دینے کا عندیہ دیا گیا، صورت حال اس کے برعکس ہے اور اصولی طور پر قومی سطح پر مشتہر کیے گئے آپریشن ردالفساد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معمول کی کارکردگی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اگر دیکھا جائے تو آپریشن ردالفساد کے بہت نمایاں عنوان کے تحت قانون نافذ کرنے والے ادارے معمول کی تلاشی اور مخبروں کی فراہم کردہ اطلاعات پر قانون شکن قوتوں کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مشغول ہیں تو یہی کام پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے عام دنوں میں بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے پولیس کا ایک ذمہ دار عہدیدار صبح اپنے دفتر جاکر دو تین تھانوں سے ایک ایک گاڑی منگوائے اوراُن کے ساتھ ایک گاڑی رینجرز کے جوانوں کی لگا دی جائے جو کسی شہر کے مضافات میں کسی جوئے کے اڈے پر چھاپہ مارے اور دوران ناکہ گلی سے گذرتے ہوئے ایسے کچھ افراد کو بھی گرفتار کرلیا جائے جن کے پاس قومی شناختی کارڈ نہ ہوں۔ بغیر شناختی دستاویز گھومنے پھرنے والے افراد کو پولیس اپنی ابتدائی رپورٹ میں کسی بھی مشکوک زمرے میں رکھ سکتی ہے۔ اس تمام کارروائی میں خبریت تو بہرحال موجود ہے لیکن دہشت گردی کی شکار ریاست کو درکار کسی آپریشن سے ملتی جلتی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔

اس کے علاوہ سیکورٹی اداروں کی روزانہ کی بنیاد پر سامنے آنے والی کارکردگی مخصوص قسم کے پولیس مقابلے ہیں، جن میں ہمیشہ مبینہ دہشت گرد ہی مارے جاتے اور زخمی ہوتے ہیں۔ پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس قسم کے اندھے پولیس مقابلوں کی غیرجانبدارنہ تحقیق کا بندوبست نہ ہونے کے برابر ہے اور دستیاب معلومات سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ کوئی ایک پولیس مقابلہ بھی ایسا نہیں تھا جس سے بچا جا سکے اور کوشش کر کے خطرناک دہشت گردوں یا اُن کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا جاتا۔ تقریباً تمام پولیس مقابلے ایک جیسے متن کے ساتھ دو یا تین سطری روئیداد کے طور پر بیان کیے جاتے ہیں، جن میں اس نوعیت کے مقابلے کی سراسر ذمہ داری مبینہ دہشت گردوں کے سر ڈالی جاتی ہے، جو ہر صورت میں مرنے کے لیے اچانک اپنی کمین گاہوں سے باہر نکل پڑے تھے اور پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے، پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا،دہشت گردوں نے جواب میں فائرنگ کردی اور کسی بھی پولیس اہلکار کو زخمی کیے بغیر خاموشی سے ڈھیر ہو گئے۔

ایک ایسی ریاست جسے کئی دہائیوں سے سفاک اور انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی طرف سے مسلسل نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور جس کے ہزاروں افراد دہشت گرد حملوں میں لقمہ اجل بن چکے ہیں،تقریباً تمام ریاستی اداروں پر حملہ کیا جا چکا ہے اور خفیہ ایجنسیوں کے دفاتر سے لے کر سابق وزیراعظم تک اِن حملوں سے محفوظ نہیں رہے، فوجی ہیڈ کوارٹر سے لے کر انتہائی جدید دفاعی سازوسامان تک دہشت گردوں کی دست برد سے محفوظ نہیں رہا، وہاں بڑے بڑے آپریشن چند ہفتوں میں اپنی افادیت کھو دیتے ہیں۔ یہ ایک حیران کن امر ہے جس کی وجوہات میں جانے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ حالیہ دہشت گرد حملوں کے بارے ملک بھر میں جاری ردالفساد نامی آپریشن بھی مبینہ پولیس مقابلوں پر پہنچ کر تھکن کا شکار ہے جب کہ سرکاری سطح پر مسلسل اعلان کیا جارہا ہے کہ مذکورہ آپریشن انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف حاصل کر رہا ہے۔

اصل معاملہ ایک بالکل مختلف نوعیت کی صورت حال ہے جس کے بارے میں کہیں پر بھی کوئی زبان کھولنے کو تیار نہیں۔ وہ صورت حال کچھ یوں ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی و انتہا پسندی کی ذمہ دار قوتوں کی نشاندہی کس طرح کی جائے، کون کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیوں کرے؟ ہچکچاہٹ کا شکارسول حکومتیں انتخابی ناکامیوں کے خوف میں مبتلا رہتی ہیں جبکہ طاقت ور ریاستی ادارے سول حکومتوں کے غیرعلانیہ مخالفین کی صورت اختیار کیے رہتے ہیں۔ اطراف میں بڑے فیصلوں کی ذمہ داری سے بچنے کی ہرممکن کوشش کو اولیت حاصل رہتی ہے۔ جب تصادم ناگزیر نظر آنے لگتا ہے تو سول حکومتوں کے مخالفین کی تعداد بڑھنے لگتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے دیگر ریاستی ادارے بھی عارضی سول حکومتوں کی بجائے مستقل طاقت ور اداروں کا انتخاب کرتے ہیں اور یوں سول حکومتیں مکمل طور پر اپاہج بن کر رہ جاتی ہیں۔ سول حکومتیں مکمل اپاہج پن اور کمزور ہوجانے کے خوف میں مبتلا رہتی ہیں اور یوں نہ وہ کبھی بڑے فیصلے لے سکتی ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔

یہی صورت حال ریاست پاکستان میں دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کے انسداد کے راستے میں کھڑی نظر آتی ہے۔ اب چاہے ضرب عضب ہو یا ردالفساد نامی کوئی آپریشن یا اس کے بعد شروع کیا جانے والا کوئی تیسرا آپریشن اجتماعی صورت حال میں واضح تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ اگر مبینہ دہشت گرد ضرب عضب کے نام کے تحت مبینہ پولیس مقابلوں میں ہلاک کرکے دہشت گردی کے حقیقی خاتمے کا اعلان کیا جارہا تھا، تو وہی کام ردالفساد کے نام سے بھی جاری و ساری ہے، فرق صرف نام کا ہے۔ دہشت گرد وہیں کے وہیں ہیں،اُن کے سہولت کار پہلے سے کہیں زیادہ طاقت ور اور پیچ در پیچ تعلقات کے حامل ہیں۔ دہشت گردوں کی روایتی نرسریاں پہلے سے زیادہ بار آور ہیں اور سوشل میڈیا سے لے کر ابلاغ کے تمام دھاروں پر اُن کی موجودگی نمایاں نظر آتی ہے بلکہ اب تو اُنہیں لاتعداد حمایتی بھی حاصل ہوچکے ہیں جو اُن کا کام ہر فورم پر آسان بنانے میں مصروف ہیں۔ روزانہ درجنوں مبلغین اپنے ماننے والوں کو مخالفین کی گردنیں اُڑانے کی ترغیب دیتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ سرعام ریاست اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں پر لعنتیں ڈالی جاتی ہیں اور حکومتوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ مٹھی بھر لبرل سرچھپاتے پھررہے ہیں کہ ہر طرف متشددین کا غلبہ ہے،کوئی فیس بک پر گردنیں اُڑانے کی دھمکی دیتا ہے، کسی نے ٹویٹر پر محاذ سنبھال رکھا ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ ایک تیسرا آپریشن جلدی جاری ہوگا، صرف نام تلاش کیا جانا باقی ہے، اللہ اللہ خیرسلا….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).