سانحہ یوحنا آباد کے مسیحی ملزمان کو اسلام قبول کرنے کے عوض رہائی کی پیشکش


لاہور: انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق انسد اد دہشت گردی کی عدالت میں دو افراد کو زندہ جلانے کے مقدمہ کا سامنا کرنے والے مسیحی برادری کے ملزمان کو پراسیکیوٹر (حکومت کی جانب سے پیروی کرنے والے وکیل) نے پیشکش کی ہے کہ اگر وہ اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیں تو وہ اُن کی رہائی کی یقین دہانی کرا سکتا ہے۔

15مارچ 2015ءکو لاہور کی آبادی یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں میں خود کش بم دھماکوں کے بعد 42 مسیحیوں پر دو افراد کو زندہ جلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا ۔ مذکورہ بم دھماکوں کے بعد مسیحی برادری کے متشدد احتجاج کے دوران مشتعل ہجوم نے دھماکوں میں ملوث ہونے کے شک میں دو افراد کو زندہ جلا دیا تھا۔

ملزمان کو مقدمہ میں قانونی امداد فراہم کرنے والے انسانی حقوق کے کارکن جوزف فرانسس نے بتایا، ” انسداد دہشت گردی عدالت 1لاہور (ATC-1) میں ملزمان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈپٹی ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر سید انیس شاہ نے ملزمان کو کمر ہِ عدالت سے باہر جمع کر کے اسلام قبول کرنے کے لئے کہا “۔ ”اُس نے کہا کہ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو میں انہیں اِس مقدمہ میں بری ہونے کی ضمانت دیتا ہوں “۔

 سماجی کارکن جوزف کے مطابق ملزمان خاموش رہے اور انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تا ہم عرفان مسیح نے جواب دیتے ہوئے پراسیکیوٹر سے کہا کہ وہ مسیحت قبول کر لے تو بدلے میں وہ پھانسی چڑھنے کے لئے تیار ہے۔

ملزمان کے ایک وکیل ایڈووکیٹ نسیم انجم نے صحافیوں کو بتایا کہ پبلک پراسیکیوٹر کی یہ پیش کش نئی نہیں ہے۔ اُس نے چھ ماہ قبل بھی کچھ ملزمان کو یہ پیشکش کی تھی مگر انہوں نے اُسے نظر انداز کر دیا تھا۔

انجم نے کہا ،” وہ (ملزمان)عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں تا ہم دپٹی پراسیکیوٹر انہیں بلیک میل کر رہا ہے۔‘ اپنے افعال کے باعث ریاست کو بدنام کر نے والے افراد سے سرکار کو جان چھڑانی چاہئے۔

جب سید انیس شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے الزام کی صحت سے انکار کیا تا ہم جب انہیں بتایا گیا کہ ملزمان کے پاس اُن کی گفتگو کی و یڈیو ریکارڈنگ موجود ہے تو انہوں نے تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اُن (ملزمان) کو ایک انتخاب کی پیشکش کی تھی۔ بعد ازاں رابطہ کرنے پر سید انیس شاہ نے فون کاٹ دیا۔

(رپورٹ: ایکسپریس ٹریبون۔ ترجمہ:عطا الرحمن سمن)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).