کچھ عصمت چغتائی کے بارے میں (1)


 عصمت چغتائی کے افسانہ میں ایک لڑکی دوسری کے متعلق کہتی ہے کہ ”سعیدہ موٹی تھی تو کیا، کمزور تو حد سے زیادہ تھی بےچاری۔ لوگ جسم دیکھتے ہیں یہ نہیں دیکھتے جی کیسا ہر وقت خراب رہتا ہے“۔ جب میں نے عصمت کی کلیاں اور چوٹیں دونوں مجموعے ختم کر لئے اور جو چند دیباچے اور مضامین ان کے مداحین اور معترضین نے ان پر ازرہ تنقید وتعارف لکھے ہیں ان سے بہرہ یاب ہوچکا تو استعارے کے رنگ میں یہ فقرہ پھر یاد آیا۔ ”لوگ جسم دیکھتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ جی کیسا ہر وقت خراب رہتا ہے“۔

 اس فقرے کے معانی کو کھینچ تان کر پھیلا لیجئے، اور اس پر تھوڑا سا فلسفیانہ رنگ پھیر لیجئے تو عصمت کے بعض کمالات اور نقادوں کی بعض کوتاہیوں کو بیان کرنے کا اچھا خاص بہانہ ہاتھ آجاتا ہے جو حال فربہی کا ہے وہی حال کئی او رمعروف اور متدا دل اور لیبلوں کا ہے جو مستعمل الفاظ اور عادات مستمرہ کی شکل میں قسم قسم کی اشیاء پر چپکے نظر آتے ہیں۔ ذہنی کسالت اور خوف اور بزدلی کے مارے ہم اکثر فیصلے لیبلوں ہی کو دیکھ کر صادر کر دیتے ہیں۔ ان سے آگے نکل کر اصل چیز کو جانچنے اور تولنے کی ہمت اپنے آپ میں نہیں پاتے۔ مامتا اور عشق پر دل گدازی کا لیبل مدت سے لگا ہوا ہے اس لئے جہاں ان کا ذکر آئے کہنے اور سننے والے دونوں ایک علّو اور ایک پاکیزہ رقت کے لئے پہلے ہی سے تیار ہو بیٹھتے ہیں۔ جنسی مشاغل تحقیق کہ پستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کا بیان بغیر کراہت یا اخلاقی غیظ کے ہو تو لوگ برہم ہوجاتے ہیں۔ بہن بھائیوں کا سا پیار جاننا چاہئے کہ پاک محبت کا سب سے اونچا درجہ ہے لہٰذا بہن بھائی کے درمیان بجز اس جذبہٴ عالیہ کے کسی اور تعلق کی گنجائش ناممکن یا کم از کم نامناسب ضرور سمجھی جاتی ہے۔ عصمت چغتائی کے رہنما بھی اندھا دھند ایسے ہی کلیئے ہوتے تو ادب ان کی بہترین انشا سے محروم رہ جاتا لیکن ان کی بصیرت اس سے کہیں زیادہ دوررس ہے۔ وہ لیبلوں کے فریب میں نہیں آتیں اور جسم اور دل اور دماغ کی کئی کنیتیں ایسی ہیں جن سے وہ اکیلے میں دوچار ہوتے نہیں گھبراتیں۔ ایسے انشا پرداز کا بغیر حوصلہ مشاہدہ، وقت نظر اور جرأت بیان کے گزارہ نہیں۔ اور یہ ادیب کی خوش قسمتی ہے کہ عصمت کو یہ تینوں نعمتیں میسر ہیں۔

 برخلاف اس کے احساس محرومی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس جرأت اور وقت نظر میں سے عصمت کے نقادوں کو حصہ وافر نہیں ملا۔ فی الحال ان کا ذکر جانے دیجئے جن کو عصمت کی تحریروں میں اپنے اخلاق اور ادب دونوں کی تباہی نظر آتی ہے وہ تو ان لوگوں میں سے ہیں جن کے لیبل گوند سے چپکے ہوئے نہیں میخوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے ذہنوں میں ایک موٹی موٹی لکیروں والی جدول بنا رکھی ہے کہ ان چیزوں کا ذکر حلال ہے ان کا حرام ہے نامحرم کا ذکر ہم مقرر کر چکے ہیں کہ فحش ہے۔ محرم کا ذکر معاملہ بندی ہے یعنی جائز ہے۔ حرام کا بچہ فطرت کو منظور ہے تو ہوا کرے، ہمارے ادب کو منظور نہیں۔ اور یہ فطرت کا مطالعہ؟ محض ایک ڈھونگ! آوارہ مزاجوں کا عذر آوارگی! ہمیں بچپن میں مطالعہ پر کوئی مجبور نہ کرسکا تو اب کسی کی کیا مجال ہے؟ ہم جب بھی کھلونے سے دل بہلاتے تھے اب بھی کھلونوں سے دل بہلائیں گے… ایسے لوگوں سے اس وقت بحث نہیں کیونکہ

وہ وہاں ہیں جہاں سے ان کو بھی

کوئی ان کی خبر نہیں آتی

شکایت ان سے ہے اور اپنوں کی شکایت ہے، بیگانوں کی سی نہیں۔ جو عصمت چغتائی کے قدر دان اور مداح ہیں ان لیبلوں کے مضامین کو پڑھ کر روح میں ایک بالیدگی محسوس کرتے ہیں جس سے دل میں امنگیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور نئی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ گلہ ہے کہ وہ بھی ہر پھر کر لیبلوں ہی کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ افسوس کہ عصمت مرد نہیں اور افسوس کہ لیبلوں میں سے سب سے بڑا اور گمراہ کن لیبل عورت ہے۔ مرد ذات کے قرنوں کے خرابوں اور محرومیوں سے چپکا ہوا۔ عورت دلفریب ہے، مکار ہے، صنف نازک ہے، ایک معمہ ہے، کمزور ہے، کم عقل ہے، مجموعہٴ اضداد ہے۔ جہاں آپ نے عورت کا نام لیا، ان میں سے دو چارگھڑے گھڑائے معنی ذہن اُگل کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ چنانچہ اسی فریب میں آکر ہونہار اور ذہین دیباچہ نویس فرماتے ہیں:

 ”عصمت کے افسانے گویا عورت کے دل کی طرح پُر پیچ اور دشوارگزار نظر آتے ہیں۔ میں شاعری نہیں کررہا اور اگر اس بات میں شاعری ہے تو اسی حد تک جہاں تک شاعری کو سچی بات میں دخل ہوتا ہے۔ مجھے یہ افسانے اس جوہر سے متشابہ معلوم ہوتے ہیں جو عورت میں ہے۔ اس کی روح میں ہے۔ اس کے دل میں ہے۔ اس کے ظاہر میں ہے۔ اس کے باطن میں ہے۔“

 اب نہ معلوم اس نوجوان نقاد کے تصور نے عورت کا لیبل کس قسم کی چیزوں پر لگا رکھا ہے۔ یہ معلوم ہوتا تو وہ جوہر بھی کھلتا جو بہ قول ان کے عصمت کے افسانوں میں ہے لیکن ان کے رنگین تصورات ومفروضات کے خلوت کدہ میں ہمیں کیونکر باریابی ہوسکتی ہے اور کوئی ایسی ڈکشنری بھی نہیں جس میں عورت کے وہ معنی مل جائیں جو اس تنقید کی تہہ میں کام کر رہے ہیں۔ دیباچے کا مقطع ہے:

 ”عصمت کا نام آتے ہی مرد افسانہ نگار کو دورے پڑنے لگتے ہیں۔ شرمندہ ہو رہے ہیں آپ ہی آپ خفیف ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ دیباچہ بھی اسی خفت کو مٹانے کا ایک نتیجہ ہے۔“لیجئے۔ عورت کے ایک دوسرے تصور سے پھر میرے عزیز کی ناقدرانہ نظر بہک گئی۔ دکھانے تو چلے تھے عصمت کے افسانوں کا جوہر لیکن آخر کہہ گئے کہ یہ عورت ناقص العقل جانور ہے ڈاکٹر جانسن کے کتے کی طرح کہ دو ٹانگوں کے بل کھڑا ہو جائے تو تعجب وتحسین ہی کا نہیں بلکہ ہم انسانوں (یعنی مردوں) کے لئے شرم و ندامت کا موجب ہے۔ ایک اور مقتدر و پختہ کار دیباچہ نویس نے بھی معلوم ہوتا ہے انشا پردازوں کے ریوڑ میں نر اور مادہ الگ الگ کر رکھے ہیں۔ عصمت کے متعلق فرماتے ہیں کہ ”اپنی جنس کے اعتبار سے اردو میں کم و بیش انہیں وہی مرتبہ حاصل ہے جو ایک زمانہ میں اردو ادب میں جارج ایلیٹ کو نصیب ہوا“۔ گویا ادب بھی کوئی ٹینس کا ٹورنامنٹ ہے جس میں عورت اور مردوں کے میچ علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ جارج ایلٹ کا رتبہ مسلم۔ لیکن یوں اس کا نام لے دینے سے تک ہی ملا اور بوجھوں تو کوئی کیا مرے گا۔ اب یہ امر ایک علیحدہ بحث کا محتاج ہے کہ کیا کوئی مابہ الامتیاز ایسا ہے۔ خارجی اور ہنگامی اور اتفاقی نہیں بلکہ داخلی اور جبلّی اور بنیادی جو انشا پرداز عورتوں کے ادب کو انشا پرداز مردوں کے ادب سے ممیز کرتا ہے اور اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ ان سوالوں کا جواب کچھ بھی ہو، بہرحال اس نوع کا ہرگز نہیں کہ اس کی بنا پر مصنفین کو ”جنس کے اعتبار سے“ الگ الگ دو قطاروں میں کھڑا کر دیا جائے۔

 اسی طرح جہاں کسی افسانے میں خاندان، گھر بار، اعزا واقربا کا ذکر آگیا۔ یا کسی متمول لڑکے نے کسی مفلس لڑکی پر ہاتھ ڈالا، جوشیلے اور دردمند دل رکھنے والے نقادوں نے مسرت کا نعرہ لگایا اور بغلیں بجائیں کہ سماج کی خبر لی جا رہی ہے۔ اب غور سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ عصمت کے اچھے افسانوں میں ماحول محض اس لئے شامل فسانہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ کردار کہیں تو رہیں گے۔ کسی سے تو ملیں گے افسانہ کا جو ڈھانچہ ہے اس کا کوئی گوشت پوست تو ہوگا پھر اس کے بغیر بھی چارہ نہیں کہ وہ ماحول ایک نہ ایک معروف طبقے کا ماحول ہو۔ بودوباش کا کوئی نہ کوئی ڈھنگ تو پیش نظر رکھنا ہی پڑے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ یہ ماحول جن معاشی اصولوں کی وجہ سے پیدا ہوا خود وہ اصول جانچے اور پرکھے جا رہے ہیں۔

 عصمت کے بعض مضامین ایسے بھی ہیں جن پر شبہ ہوتا ہے کہ سماج کو سامنے رکھ کر لکھے گئے ہیں۔ لیکن انہوں نے جہاں بھی سماج کو اپنا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ان کا ہاتھ جھوٹا ہی پڑا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سماج کی جن باتوں سے عصمت کا جی برا ہوتا ہے ان پر عصمت نے غور ضرور کیا ہوگا۔ لیکن تلخی کام ودہن ابھی ان کے رگوپے تک نہیں پہنچی اور جب تک یہ نصیب نہ ہو سماجی کمزوریوں پر اخباروں میں مضمون لکھ لینے چاہیں۔ ان کو فن کی لپیٹ میں لانے کا خیال چھوڑ دینا چاہئے۔ عصمت کو فی الحقیقت شغف سماج سے نہیں شخصیتوں بلکہ اشخاص سے ہے۔ ان کے جوش اور ہوس سے۔ ان کی تھرتھراہٹ اور کپکپی سے، ان کی باہمی کشمکش اور عداوت اور فریب کاری سے، غرض ان تمام کیفیتوں سے جو انسان پر جب طاری ہوتی ہیں تو جسم پھڑکنے لگتا ہے اور دوران خون تیز ہوجاتا ہے یا اعصاب میں الجھاؤ اور طبیعت میں تناؤ پیدا ہوجاتا ہے اگر عصمت اور سماج کا باہم ذکر اس نقطہٴ نظر سے کیا جائے کہ ان کی سی انشاء ان کا سارا رجحان اور ان کا سااسلوب انتخاب ایک خاص زمانے اور خاصی سماجی کشمکش کی پیدوار ہیں تو یہبحث مناسب ہی نہیں بلکہ نتیجہ خیز بھی ہوگی۔ یہ کون نہیں جانتا کہ اردو میں عصمت جیسے ادیب اس صدی کے اوائل میں بھی منفقود تھے۔ اور اس سے پہلے کا ذکر ہی کیا۔ یہ ایک امر واقعہ ہے اور اس میں کئی دلچسپ نکتے مضمر ہیں۔ جن کی توضیع یقیناً خیال انگیز ہوگی۔ لیکن حالات سے اثر پذیر ہونا اور حالات کا مفسر ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔ اس بات کا مطالعہ کرنا ہوکہ بعض سماجی حالات نے کیونکر عصمت جیسی انشا پرداز کو پیدا کیا تو شوق سے کیجئے لیکن اس شوق میں خواہ مخواہ سماج کی نباضی عصمت کے سر نہ منڈھ دیجئے۔ سیب درخت سے گرا تو یقیناً کششِ ثقل ہی کی وجہ سے گرا۔ لیکن اس کارگزاری کے صلہ میں سیب کا نام نیوٹن نہیں رکھا جا سکتا۔ نہ سیب کو سیب سمجھنے میں کچھ اس کی ہیٹی ہوتی ہے۔

(ساقی دہلی، فروری 45ء)

جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).