اتنڑ، ثقافت اور انتہا پسندی   


پچهلے دنوں اتنڑ پر مالک اچکزئی کا بہترین کالم “ہم سب” میں شائع هوا تها جس میں انہوں نے اس فوک صنف پر تفصیلاَ روشنی ڈالی تهی۔ میں کوشش کروں گا کہ اُن کے کالم کو کچھ آگے بڑهاؤں۔

بہت سے لوگ اتنڑ کو خٹک ڈانس یا پشتون ڈانس کے نام سے پکارتے ہیں۔ بدقسمتی سے بہت سارے پختون بهی اس رو میں بہہ جاتے ہیں اور اتنڑ کو ڈانس پکارنے لگتے ہیں۔ سب سے پہلے میں ایک اسان منطق کے ذریعے اتنڑ اور ڈانس کے فرق کو واضح کرنا چاہوں گا۔ جس طرح ترانے کو گیت نہیں کہا جا سکتا کیونکه ترانے کا قومی یا ملکی پہچان کی وجہ سے ایک احترام ہوتا ہے ۔ جبکه گیت ایک عام صنف ہے جس کی شاید لوگوں کے دلوں میں قدر ہو پر کوئی اسے اپنے قومی یا ملکی پہچان کے ساتھ نہیں جوڑتا۔ بلکل اسی طرح اتنڑ پختون یا افغان قوم کی وه قومی پہچان ہے جسے بہت احترام حاصل ہے ورنه پختون معاشرے میں اتنڑ کے علاوه سرعام ناچنا معیوب سمجها جاتا ہے۔

اگر اتنڑ کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو اتنڑ کی ابتدا کے بارے میں دو تصورات موجود ہیں۔ پہلا تصور اتنڑ کو زرتشت مذہب کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ آتش پرست (زرتشتی) احترام اور عبادت کے طور پر آگ کے گرد دائرے کے شکل میں ایک مخصوس انداز سے گھومتے تہے جو که اصل میں اتنڑ کی ابتدا تهی۔ جس نے رفتہ رفتہ ایک منظم اتنڑ کی شکل اختیار کی اور آئستہ آہستہ یہ مذہبی روایت سے ثقافت کا حصہ بن گیا اور پختون معاشرے میں اسے ایک قومی حیثیت مل گئی۔

دوسری طرف اتنڑ کو جنگی اہمیت کے تناظر میں بهی دیکها جا سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے که جنگ کے دوران تلوار چلانے اور جسم کو تر و تازه رکهنے کے لیے اتنڑ کی ابتدا ایک ورزش کی شکل میں ہوئی جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک منظم اتنڑ میں تبدیل هوئی۔

حقائق چاہے جو بهی ہوں پرآج کے دور میں اتنڑ سارے دنیا میں پختونوں یا اففانوں کا ایک قومی اور ثقافتی پہچان بن گیا ہے ۔ ضیا الحق کی اسلامایزیشن اور جماعت اسلامی کی عربی ثقافتی یلغار نے اگرچہ پختونوں سے بہت سے ثقافتی اقدار چهینے ۔ پر پختون معاشرے نے دو اہم چیزوں کو ہاتھ سے جانے نه دیا۔ اُن میں سے ایک رباب ہے اور دوسرا اتنڑ۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے ان دنوں دست راست (ایم ایم اے) متحده مجلس عمل کے دورِ حکومت میں پولیس والے گاڑیوں سے ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو اُتارتے تھے اور ساتھ میں جرمانے بهی وصول کرتے تھے جبکہ موسیقاروں کو صوبہ بدر کیا گیا تها۔ پر پهر بهی وه نه تو لوگوں کے دلوں سے موسیقی کا ذوق نکال سکے اور نہ ہی اپنی ثقافت دشمن پالیسیوں میں کامیاب رہے۔

ایک دلچسپ سوال یه ہے کہ ان بنیاد پرستوں کو اتنڑ یا موسیقی سے کیا تکلیف ہے اور یه غیر ضرَر رساں اصناف بنیاد پرستوں کوکیوں نقصان ده لگتے ہیں؟ ایک بہت ساده جواب ہوتا ہے که دراصل موسیقی اور ناچ گانا اسلام میں حرام ہے اور یہ بے حیائی کی ایک قسم هے۔ حالانکه اگر پچهلے دس سال کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو بنیاد پرستوں نے پختون معاشرے کے ہر اس رسم ورواج اور ادارے کو ٹارگٹ کیا ہے جو پختونوں کو اکهٹے هونے کا موقع دیتی ہے۔ جرگے دهماکوں کی نذر ہو گئے۔ حجروں پر حملے کئے گئے، حتٰی کہ جنازے بهی ان کے شر سے محفوظ نہیں رہے ۔ اس کے پیچھے یهی بنیادی مقصد چهپا ہوتا ہے که لوگوں کو اکهٹے بیٹھ کر ان حالات پر بحث کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ اور نہ کسی کو دهشت گرد اور بنیاد پرست ذہنیت چیلینج کرنے کا موقع ملے ۔

مذهبی انتہا پسندوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ لوگوں سے ان کی ثقافت بزورِشمشیر نہیں چهینی جا سکتی۔ کس کس کے ذہنوں پر پردے ڈالو گے۔ کس کس کو مار پیٹ کر خاموش کرو گے اور کہاں کہاں خود کو درست ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کرو گے۔ آپ کو قدم قدم پر اس خطے اور اس کی تاریخ و ثقافت سے محبت کرنے والے لوگوں سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آفتاب ملاگوری کا تعلق خیبر ایجنسی سے ہے۔ امن اور تنازعات میں پشاور یونیورسٹی سے پی ۔ ایچ ۔ ڈی کر رہے ہیں۔ پختون ثقافت، امن اور تشدُد کے موضوعات پر لکهتے ہیں۔  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).