میں جمعیت علمائے اسلام کی حمایت کرنے پر مجبور کیوں ہوں؟


جمعیت علمائے ہند نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ وہ کانگریس کے ساتھ کھڑے تھے۔ یہی حال سرخ پوشوں کا تھا۔ مگر آج اس بات پر ان کو طعنہ دینے والے بہت کم ملیں گے کیونکہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان سے وفاداری کا اظہار کیا۔ وہ آج اپنی تاریخ کو نئے سرے سے لکھ کر خود کو فرشتہ اور پاکستان بنانے والے لبرل، سیکولر اور کمیونسٹ طبقات کو شیطان ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں بلکہ جو غلطی کی ہے، اس کو مان لیتے ہیں اور اسی میں ان کی بڑائی ہے۔ ان کے لیڈر قائد اعظم کو برا نہیں کہتے۔ پاکستانی فوجیوں کو وہ شہید مانتے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف وہ کھڑے ہوتے ہیں اور ان دہشت گردوں کو شہید کہنے کی بجائے اپنے دلیرانہ موقف کی وجہ سے خود اپنے شہیدوں کے لاشے اٹھاتے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام والے اگر ہم پر وطن دشمنی کا الزام نہیں لگاتے ہیں اور ہمارے ایمان پر شبہ نہیں کرتے ہیں تو ہم بھی جواب میں ان کو احترام دیتے ہیں۔ ہم کیوں کسی کو وطن یا اسلام کا ٹھیکیدار سمجھیں؟ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ جو جماعتیں ایسا رویہ اختیار کرتی ہیں، لوگ بار بار ان کو ان کی تاریخ یاد دلاتے ہیں اور وہ اپنی تاریخ جھٹلاتی پھرتی ہیں اور پھر ویسے ہی معصومیت سے صدر بش کی مانند سوال پوچھتے ہیں کہ ’ہم تو اچھے لوگ ہیں، یہ لوگ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں‘؟ نہ صدر بش کو امریکی پالیسی میں کوئی خامی دکھائی دیتی ہے اور نہ تاریخ کو جھٹلانے والی جماعتوں کو خود میں کوئی خامی دکھائی دیتی ہے۔ شکر ہے کہ جمعیت علمائے اسلام والے ایسے نہیں ہیں اور باشعور لوگ ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان) والے دوسروں سے مل کر چلنے کے قائل ہیں۔ وہ تفرقے کی بات نہیں کرتے۔ وہ دوسروں میں اسلام دشمنی اور وطن سے غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹتے دکھائی نہیں دیتے۔ اسی وجہ سے ان پر بھی یہ سرٹیفیکیٹ چسپاں نہیں کیے جاتے۔ نہ ہی وہ اپنی مرضی کا نظام ڈنڈے کے زور پر عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ جمہوریت کے قائل ہیں اور جمہور کی آواز کو عزت دیتے ہیں۔ کوئی ان کی مخالفت کرے تو یہ حکم نہیں لگاتے کہ ان کی مخالفت اس لئے کی جا رہی ہے کہ مخالفت کرنے والے کو اسلام سے چڑ ہے اور کیونکہ ان کی پارٹی کے نام میں اسلام آتا ہے، اس لئے ان کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ یعنی وہ سیاسی اختلاف رائے میں مذہبی عنصر کو شامل نہیں کرتے ہیں۔ ہاں ہماری رائے میں ان کی یہ خامی ضرور ہے کہ ان کی الیکشن کمپین چلانے والے اپنے انتخابی نشان کو مقدس کتاب قرار دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کی دشنام طرازی کے جواب میں جمعیت علمائے اسلام کا یہودیت والا طعنہ بھی جمعیت کے اخلاق پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ مولانا فضل الرحمان جیسی شخصیت کو اپنا وقار قائم رکھنا چاہیے۔

اس کی ذیلی طلبہ تنظیم جمعیت طلبا اسلام والے کسی یونیورسٹی یا دوسرے تعلیمی ادارے پر قابض ہو کر اساتذہ سے غنڈہ گردی نہیں کرتے ہیں۔ وہ تعلیمی اداروں میں اپنی سوچ کو غنڈہ گردی کے ذریعے دوسرے طلبا پر مسلط نہیں کرتے ہیں۔ وہ خود کو قوم کی اخلاقیات کا محافظ قرار دے کر بدمعاشی نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر عملی زندگی میں آنے والے طلبا جمعیت طلبا اسلام یا جمعیت علمائے اسلام کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اور یہ تنظیم ایک مضبوط ووٹر بیس رکھتی ہے۔ جمعیت طلبا اسلام کی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام والے بدنامی نہیں کماتے ہیں اور نہ ہی انہیں اپنی طلبہ تنظیم کی وجہ سے ڈھٹائی سے اس کا دفاع کرتے دیکھا جاتا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام تاریخ میں ڈکٹیٹروں کی بجائے جمہوری طاقتوں کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی رہی ہے۔ اسی وجہ سے یہ غیر جمہوری طاقتوں کو اتنی پسند نہیں رہی۔ طالبان کے دیوبندی مسلک سے ہونے کے باوجود یہ دکھائی دیتا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے قائدین پر بھی وہ حملے کرتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جمعیت نے ہتھیار اٹھانے کی مخالفت کی ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو جمعیت علمائے اسلام نے ہی دہشت گردوں کی گود میں جانے سے روک رکھا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نوجوانوں کو جہاد کے نام پر لڑنے کے لئے سرحد پار نہیں بھیجتی ہے۔ وہ دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کی مخالف ہے اور اس کا ماننا یہ ہے کہ جنگ لڑنا ریاست کا کام ہے، نجی تنظیموں کا نہیں۔

سوشل اور پرنٹ میڈیا پر جمعیت علمائے اسلام والوں نے میڈیا سیل پر دوسروں کو بدنام کرنے کی خاطر گینگ نہیں بنا رکھے ہیں۔ یہ تسلیم کہ ان کے عام کارکن دشنام طرازی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور جمعیت علمائے اسلام کے لیڈروں کو اس بارے میں ایک ایکٹو کردار ادا کرنا چاہیے، مگر یہ انفرادی حرکات ہیں اور جمعیت بطور تنظیم ان گمراہوں کے پیچھے کھڑی نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ ایسا معاملہ پیش آنے پر ان کے اکابرین کی توجہ اس جانب دلوائی جائے تو وہ مداخلت بھی کرتے ہیں اور معذرت بھی کرتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کو اپنے کارکنوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دشنام طرازی سے ان کی اپنی اور جمعیت کی عزت کم ہوتی ہے اور یہ رویہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کو بہرحال ایک فعال میڈیا کمپلینٹ سیل بنانے کی ضرورت ہے جہاں سوشل میڈیا پر ان کے جذباتی کارکنوں کے رویے کے بارے میں بات کی جا سکے۔

صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت قائم ہونے پر جمعیت علمائے اسلام کے جوشیلے کارکنوں نے عام افراد کو تنگ نہیں کیا تھا۔ نہ ہی اس کے کارکن تشہیری بورڈوں پر کالک ملنے کے مشن پر نکلے تھے۔ ہاں اپنے اتحادیوں کے اعمال پر ان کو ضرور خفت اٹھانی پڑی تھی۔ ان کی لیڈر شپ اور کارکنوں میں حکومت حاصل کرنے کے بعد انتہاپسندانہ رویہ نہیں تھا۔ یہ بات ہر سیاسی کارکن کے لئے باعث اطمینان ہے۔

ہم مولانا شیرانی کے اسلامی نظریاتی کونسل میں رول پر اعتراضات کرتے رہے ہیں۔ ہمیں ان کا حقوق نسواں بل پر موقف پسند نہیں ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر حکومتی اداروں کے کام میں مداخلت کرتے دیکھ کر ہم ناخوش ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جمعیت علمائے اسلام والوں نے ہمارے موقف کا احترام کیا ہے اور ان کے اسی اخلاق نے ہمارے دل جیت رکھے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام والے برداشت کرنے کے قائل ہیں اور ان کے موقف سے اختلاف رکھنے والے ان کی اسی خوبی کی بنا پر ان کو برداشت کرتے ہیں۔

اگر جمعیت علمائے اسلام والے تکفیر نہیں کرتے، دوسروں میں غداری کے سرٹیفیکیٹ نہیں بانٹتے، اپنی فہم دین کو دوسروں کی فہم دین پر اس انداز میں ترجیح نہیں دیتے جیسے ان کی فہم دین الہامی ہو، جمہوری قوتوں کے ساتھ چلتے ہیں، ہر طبقہ فکر کا احترام کرتے ہیں، تو ہم ان کا احترام کیوں نہ کریں؟

جمعیت علمائے اسلام کے لیڈروں اور کارکنوں کو صد سالہ عالمی اجتماع مبارک ہو۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar