عبدالستار ایدھی کے نام 50 روپے کا سکہ اور ہماری ذمہ داری


معروف اور ممتاز انسانی حقوق کے رہنما محترم عندالستار ایدھی کے نام پراسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 50 روپے کے سکے کا اجرا کر کے ایدھی صاحب کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے یقیناً یہ قابل تعریف بات ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غور و فکر کی بھی بات ہے کہ ہم نے ایدھی صاحب کے مشن کے لئے کیا کیا ہے اور کیا کر سکتے ہیں۔ ’انسانیت سے اونچا کوئی مذہب نہیں‘ کہنے والے عبدلستار ایدھی کو کسی نوبل پرائز، تاج یا تمغے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایدھی صاحب کے لئے ایدھی ہاؤس کے باہر جھولے میں پھینکا ہوا بچہ کسی نوبل پرائز سے کم نہیں تھا۔ جس کو ایدھی صاحب اپنا نام دے کر پال پوس کر عزت کی زندگی دیتے تھے۔ آج ایسے لڑکے اور لڑکیاں ہزاروں کے تعداد میں ہوں گے جن کو بے رحم سماج نے ایدھی صاحب کے جھولے میں ڈال دیا۔ اور جو اب ایدھی صاحب جیسے انسان دوست باپ کی شفقت اور بلقیس ایدھی جیسے عظیم ماں کا پیاراور تعلیم پا کے عزت کی زندگی گذار رہیں ہیں۔

مجھے یاد ہے ریڈیو پاکستان کا پروگرام ’یہ بچہ کس کا ہے‘ جس میں ایدھی سینٹر سے بچوں کو اس پروگرام میں لایا جاتا تھا اور وہ اپنی گلابی اردو بول کر اپنے گھر والوں کے بارے میں بتاتے تھے۔ اس طرح بہت سارے بچے اپنے والدین کو مل گئے۔ مطلب جس کا کوئی نہیں اس کا ایدھی ہاؤس اور اس کے بانی عبدلستار ایدھی۔ فرشتہ صفت انسان، جس کا مذہب صرف انسانیت تھا جو لاوارثوں کے وارث تھے، یتیموں کے باپ، بے سہاروں کا سہارا بننے والے، لاشوں کو کفن اور غسل دے کر دفنانے والے، عظیم انسان، جس نے مذہب رنگ نسل قومیت کو چھوڑ کر انسانیت کی خدمت کی۔ جن کے گھر ایدھی ہاؤس میں ہر شخص کو اپنے مذہبی آزادی تھی چاہے وہ بھارت کی گیتا ہو یا تھر کا راموں کولی ہو۔ وہاں سب برابر تھے۔

ایدھی صاحب نے ہمیشہ دکھی انسابیت کی خدمت کی، چاہے قدرتی آفات ہوں، یا دھشتگردی کے واقعات ہوں ایدھی صاحب کی ایمبولنسز، ایدھی ہاؤسز، ایدھی اھلکار، ایدھی فیملی 24/7 بے لوث انسانی خدمت کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ایدھی پاکستان کے واحد انسان تھے جن کی پورے دنیا تعریف کرتے نہیں تھکتی۔ بابائے انسانیت جو اس فانی دنیا سے جاتے جاتے اپنے آنکھوں کا نذرانہ دے کر دوسروں کی زندگی روشن کر گئے۔ وہ عبدلستار ایدھی جن کو پوری قوم نے خراج تحسین پیش کیا۔ ویسے دیکھا گیا ہے جب کسی ادارے کا بانی فوت ہو جاتا ہے تو اس کے بعد وہ ادارہ مشکلات سے دوچار ہو جاتا ہے۔

اگر ایدھی فاوٴندیشن کی بات کی جائے تو آج بھی پورے ملک میں ایدھی ایمبولنسز، درالامان، یتیم خانے، اپنا کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ مگر مالی مشکلات کا شکار ہیں اس حوالے سے ایدھی صاحب کی بیوی بلقیس ایدھی، اور بیٹا فیصل ایدھی متعدد بار ذرائع ابلاغ کے ذریعے قوم کو بتا چکے ہیں کہ ایدھی صاحب کی وفات کے بعد ایدھی فاوٴنڈیشن مالی خسارے کا شکار ہے۔ ہمیں وہ دن ضرور یاد ہوں گے جب کبھی ایدھی فاوٴنڈیشن مالی خسارے کا شکار ہوتی تھی تو اس وقت عبدلستار ایدھی صاحب لوگوں کا رخ کرتے تھے اور اکثر بازاروں، راستوں پر بیٹھ جاتے تھے وہ کہتے تھے کہ وہ انسانیت کے لئے بھیک مانگ رہے ہیں۔ آج ایدھی صاحب ہم میں نہیں ہیں مگر ان کا مشن جو ان کی بیوی اور بیٹا لے کر چل رہے ہیں اس میں ان کی بھرپور امداد کریں تاکہ ایدھی صاحب کا یہ انسانیت کی خدمت کا مشن جاری و ساری رہے۔

جب میں چھوٹا تھا تو
میری ماں مجھے اسکول کے لئے
دو آنے دیتے تھی
ایک میرے لئے
دوسرا کسی اور پر خرچ کرنے کے لئے۔

ہمیں چاھیئے کہ ہم ایدھی صاحب کے ان الفاظ کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں اور دکھی انسانیت کی خدمت کریں۔ تاکہ بے کفں کو کفن، بے سہارا کو سہارا، ہے نام کو نام، بے گھر کو گھر اور یتیم کو سہارہ مل پائے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم ایدھی صاحب کے اس انسانیت کے مشن میں ان کی مدد کر کے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

میں پڑھا لکھا تو نہیں ہوں لیکن
مارکس اور لینن کی کتابیں پڑھی ہیں
کربلا والوں، کی زندگی پڑھی ہے
میں تمیں بتاتا ہوں، اصل جنگ کس کی ہے
اصل جنگ امیر و غریب کی ہے
ظالم و مظلوم کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).