آپ نظام سے کیا چاہتے ہیں۔ انصاف یا جبر؟


ہمارے بہت سے سیاست دانوں اور اینکرحضرات (جن کے مائیک کے ساتھ جام جمشید بھی انسٹال معلوم ہوتا ہے) نے دعویٰ کیا ہے کہ شرجیل میمن کی پاکستان آمد پر گرفتاری میں نیب کی ناکامی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت پر رہائی پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے درمیان کسی نئی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ ایسے کہنے والے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہماری عدلیہ ابھی تک ایگزیکٹو کے کنٹرول سے آزاد نہیں ہوئی ہے۔ اس سے بھی پریشان کن یہ بیانیہ ہے کہ کسی بھی ملزم کی ضمانت پر رہائی ایک ایسی غیر معمولی رعایت ہے جو ناجائز ڈیلنگ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کے تعلیم یافتہ، درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی سوچ پر ایسے رویے اثر انداز ہو رہے ہیں جو قانون اور انصاف کی روح کے منافی ہیں۔ انصاف کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ایک ملزم کو جرم ثابت ہونے تک بے گناہ سمجھا جائے، لیکن لگتا ہے کہ پاکستان کی حدود میں یہ عالمگیر اصول دفن کیا جاچکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شرجیل میمن اور عاصم حسین انتہائی بدعنوان ہوں، لیکن کیا ہم اب تک اُن کا جرم ثابت کرچکے ہیں؟کیا ہمیں غیب کا علم حاصل ہے ؟فی الحال اُن کا کسی عدالت میں مقدمہ نہیں چلا ور نہ ہی وہ مجرم ثابت ہوئے ہیں تو پھر ہم نے اپنے ذہن میں عدالت کیوں لگا لی ہے؟ کیا ہمارے من کی عدالت میں مسند افروز جسٹس نے اُنہیں صرف میڈیا ٹرائل کی بنیاد پر معتوب قرار دیا ہے؟ عمومی سوچ اس نہج پر ڈھل چکی ہے کہ جب بھی آپ ’’جرم ثابت ہونے تک بے گناہ ‘‘ کے عالمی اصول کی بات کریں تو آپ کو ’’لوٹ مار کرنے والے طبقے ‘‘ کا حامی اور خیر خواہ سمجھا جاتا ہے۔ خیر اس منفی رویے کے پیچھے بھی کچھ وجوہ ہیں۔ ایک شکست خوردہ، کمزور کریمنل جسٹس سسٹم، جس میں کسی صاحب ِ اختیار اور طاقتور افراد کو سزا ملتی نہیں دکھائی دیتی، یہ دلیل تقویت پاتی ہے۔ چونکہ ہم شارٹ کٹ تلاش کرنے والا معاشرہ ہیں، چنانچہ یہ سوچ بلاجوازنہیں۔ ہم اس نظام کی خامیاں درست کرنے اور اس کی کارکردگی بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہم صرف اُس وقت خوشی سے تالیا ں بجانا شروع کردیتے ہیں جب کوئی طاقتور شخص اتفاقاً قانون کی زد میں آجاتا ہے۔ یاد رکھیں، اتفاقات نظام کا معیار طے نہیں کرتے۔

ہمارے ہاں ملزم اور مجرم کی تمیز مٹ چکی ہے۔ اگر مقدمہ کئی برس تک چلتا رہے اور ملزم رہا کر دیا جائے تو ہم اس سست نظام ِ انصاف کی کمزوری کی وجوہ تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔اگر استغاثہ قابل ِ اعتماد ثبوت فراہم کرنے سے قاصر رہتا ہے، تو ہم فوراً ہی اپنے قانون کو تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں تاکہ ایسا نظام آجائے جس میں ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ اگر عدالتیں کسی ملزم کو شک کا فائدہ دے دیں، تو ہمیں نئی عدالتوں کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے تاکہ ہر ملزم کو سزا مل سکے۔ ہم صرف دوسروں کو سزا ملتے دیکھنا چاہتے ہیں، چاہے وہ قصوروار ہیں یا نہیں۔

ہمارے ہاں پروان چڑھنے والے مقبول ِعام سیاسی بیانیے میں حقائق اور معقول استدلال کی جگہ اشتعال نے لے لی ہے۔ اگر آپ کو دہشت گردوں پر غصہ آگیا ہے، اور سویلین عدالتیں مشتبہ افراد کو رہا کر رہی ہیں تو یہ آپ کے نزدیک فوجی عدالتوں کے قیام کا ٹھوس جواز ہے، تاکہ مشتبہ افراد کو سو فیصد سزا مل سکے۔ اگر آپ نظام کے ساتھ ناراض ہیں کیونکہ یہ بدعنوان ہے اور اس میں کسی بدعنوان کو بھی سزا نہیں مل پا رہی تو آپ انصاف کے اصول تبدیل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ آپ ہر صورت میں بدعنوانی ختم کرنے پر تل چکے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم ظالم ہے اور اس میں قصورواروں کے بچ نکلنے کے لئے جھول موجود ہیں۔ ہم نے اس کی کارکردگی بڑھانے کے لئے اس کے تحفظ کو قربان کیا ہے۔ تاہم نیم دلی سے کی گئی کوششوں نے اس کے تحفظ کو نقصان پہنچا دیا ہے۔ دوسری طرف اس کی ساکھ اور کارکردگی بھی بہتر نہیں ہوپائی۔ ہنگامی بنیادوں پر کیے گئے فیصلوں نے ہمارے نظام کے ڈھانچے کو اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ اب اس میں بامعانی اصلاحات کا عمل مشکل ہوچکا ہے۔ اگرچہ ہم مخصوص دھڑوں کے مفادات کو مورد ِالزام ٹھہراتے ہیں، لیکن سستی اور معقولیت سے اجتناب دراصل اصلاحات کے راستے کی رکاوٹیں ہیں۔

جب بھی کسی کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جاتی ہے تو ہر کوئی، بشمول پولیس، اُسے مشورہ دیتا ہے کہ وہ ضمانت قبل از گرفتاری کرالے۔ ایسا کیوں ہے ؟ ایک ایف آئی آر کو محض ’’قابل ِ تفتیش معلومات‘‘ کیوں نہیں سمجھا جاتا؟ اس کے بعد خود بخود گرفتاری کا خوف کیوں دامن گیر ہو جاتا ہے ؟جسٹس آصف کھوسہ نے 2005 ء میں لاہورہائی کورٹ کے فل بنچ کا ایک فیصلہ لکھتے ہوئے کہا۔۔۔’’تمام قوانین اور عدالتی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ قانون کی روح یہ ہے کہ ایف آئی آر پر کسی مشتبہ شخص کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ ایسا کرنا انصاف کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔‘‘ جج صاحب نے مزید لکھا۔۔۔’’اگر کسی شخص کو اس کی آزادی سے پہلے محروم کردیا جائے اور بعد میں گرفتار کرنے والی ایجنسی اُس پر (جبکہ وہ گرفتار ہو) الزامات ثابت کردے تو یہ بذات خود ایک بوگس کارروائی ہوگی۔‘‘سپریم کورٹ نے اسی اصول کی تصدیق کی ہے۔ حال ہی میں جسٹس کھوسہ نے ایک فیصلے (2014 SCMR 1672)میں لکھا۔۔۔’’ حتیٰ کہ انتہائی گھنائونے جرائم میں پولیس پر کسی قانونی شق کے تحت کوئی مجبوری نہیں کہ وہ تحقیقات کے دوران، جبکہ وہ تحقیقات میں تعاون کررہا ہو، ملزم کو فوری طور پر گرفتار کرلے۔‘‘

سپریم کورٹ نے اس کے پیچھے یہ منطق بیان کی جب اس نے کیس 1972 (PLD 1972 SC 81) میں لکھا۔۔۔’’یہ بات یاد رکھنے کی ہی ہے کہ ضمانت کا مطلب بے گناہ قرار دیا جانا نہیں ہوتا۔ لیکن محض شبے کی بنیاد پر لوگوں کو جیل میں رکھنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ ‘‘نومبر 2016ء میں سپریم کورٹ نے سزائے موت کے ایسے مجرم کو رہا کرنے کا حکم دیا جو جیل میں دو عشرے گزار چکا تھا۔ دسمبر میں ایک ایسے قیدی کو رہا کیا گیا جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے گیارہ سال گزار چکا تھا۔ اکتوبر میں دو بھائیوں کو قتل کے کیس سے رہا کرنے کا حکم دیا گیا لیکن پتہ چلا کہ اُنہیں پھانسی ہوچکی ہے۔ یہ مثالیں، خاص طور پر آخری مثال یہ باور کرانے کے لئے کافی ہے کہ ہمارا سسٹم کس بھیانک حد تک خراب ہوچکا ہے۔

ان ناانصافیوں کا شکار ہونے والوں کے اہل ِ خانہ کس سے منصفی چاہیں؟ کسے اپنے نقصان کا ذمہ دار ٹھہرائیں؟ کیا طویل عرصہ جیل میں گزارنے والا کسی طور تلافی حاصل کرسکتا ہے ؟

قانون کے متروک شدہ اصول ابھی تک عوامی سوچ اور ’’دانائی ‘‘ کا حصہ کیوں ہیں؟ اگر کسی شخص کے نام کی ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے تو اُسے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے، یا یہ خیال کیوں جاتا ہے کہ اگر اُسے حراست میں نہ لیا گیا تو وہ مزید جرائم کا ارتکاب کرسکتا ہے ؟عدالتیں قبل از گرفتاری ضمانتیں دے دے کر کام کے بوجھ تلے کیوں دب چکی ہیں؟ حتیٰ کہ جب کسی ملزم کے بارے میں تحقیقات کرنے والوں کو سو فیصد یقین ہو کہ وہ واقعی قصور وار ہے تو بھی اُسے جرم ثابت ہونے تک کیوں گرفتار کیا جائے، تاوقتیکہ وہ معاشرے کے لئےخطرہ ہو، یا پھر اُس کے ملک سے فرار ہونے کا اندیشہ ہو۔

ہمارے نظام میں تحقیقات دراصل تشدداور جبر کے ذریعے اعتراف کرانے کا نام ہے۔ زیادہ تر کیسز میں حقیقی تحقیقات اور ثبوت پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ درحقیقت ہمارا موجودہ قانونی نظام انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے ذریعے صرف اُسے ہی سزا ملتی ہے جو ’’غلط ‘‘پکڑا جائے۔ یہ طاقتور اشرافیہ کو سزا دینے کے قابل نہیں۔ یہ غیر اشرافیہ، جیسا کہ طاقتور مافیاز کو بھی سزا نہیں دے پاتا۔ ہمیں اُس دور کی کہانیاں یاد ہیں جب طاقتور اشرافیہ کی منشا پر نہ چلنے والی عورتوں کو چڑیل قرار دے کر جلا دیا جاتا تھا۔ کیا ہم واقعی اُس دور سے آگے بڑھ چکے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar