ریاستی بیانیہ واضح ہے: جس کی لاٹھی اس کی بھینس


گئے زمانوں میں ان انقلابیوں سے مکالمہ رہا جن کا منشور مذہب کے ماننے والوں کی تضحیک کرنا رہا۔ ان انقلابیوں کو مایوس ہوئے بھی زمانہ بیت گیا۔ کل عالم کو سوشلسٹ بنانے کا خواب دیکھنے والوں میں سے بیش تر قوم پرستی جیسے مہلک ناسور کا شکار ہو گئے، باقی رہ جانے والوں نے این جو او کی گود میں پناہ ڈھونڈ لی۔ اُن سابق انقلابیوں کی نظر میں ہم جیسے نوجوان مولوی کہلاتے تھے، گر چہ مولوی وہ تھے کہ اپنے سوا کسی کو مقدس نہ سمجھتے تھے۔ اِدھر اپنے دینی بھائی تھے کو بامیان کے مجسموں کے گرنے کا جشن مناتے دکھائی دیتے؛ ہم ہکا بکا اُن کی صورت دیکھا کیے کرتے کہ یہ مذہب کی کیا خدمت ہوئی۔ یہ دینی بھائی ہمیں بے دین قرار دے کر دیوار سے لگانے کی کوشش کرتے؛ کچھ مہربان لحاظ کرتے تو ہمیں امریکی ایجنٹ کا خطاب دے کر مطمئن ہو جاتے۔ دیکھا گیا ہے کہ یہاں مخالف نقطہ نظر کو نہیں جانچا جاتا، مخالف کو بد نیت ثابت کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اسے بیانیہ سمجھ لیں یا بیان۔

ریاست کے بیانیے پر تنقید آج کی بات نہیں۔ کسی مولوی ہی کی طرح ہمارا ایمان ہے کہ پاکستان میں بیانیے کی تبدیلی کا عمل محض بیان ہی ہے۔ ریاست چاہے تو کیا مشکل ہے؛ پے چیدگی یہ ہے کہ ناچنے والی پتلیوں کی ڈور پردے کے پیچھے تلک جاتے دکھائی دیتی ہے، وہاں کس کے ہاتھ ہیں، کس کی انگلیاں کہ تار چھِڑے جاتے ہیں کہ یہ رقص نہیں تھمتا۔ میرے وہ لبرل دوست جن کا اصرار ہے کہ ریاست سے مذہب کا اجارہ ختم ہونا چاہیے، میں انھیں صاف جواب دیتا ہوں ایسا ممکن نہ ہوگا۔ ایسا نہیں کہ یہ دعوا کشف کے زور پر کیا جاتا ہے، معروضی حالات یہی بتاتے ہیں کہ یہاں داستانیں سننے والے ہیں اور سنانے والے؛ یہاں داستانیں بکتی ہیں۔ سچ نہ کوئی بولنا چاہتا ہے، نہ کسی کو سچ بولنے یا سننے سے غرض ہے، خاص طور پر جب سچ سننے والی کی اپنی ذات سے متعلق ہو۔

پاکستان اور پاکستان کی تواریخ اور سیاسی تواریخ کا سرسری سا بھی مطالعہ ہو، تو تعلیم سے کوسوں دُور اس معاشرے کو توہمات ہی کے سہارے چلا جا رہا ہے۔ بساط بچھانے والے ان مہروں کے ٹیڑھ سے خوب واقف ہیں۔ ڈھائی گھر کس کو چلانا ہے، اور کس کے لیے آئین قوانین کے قدمچوں کی قید نہیں، سب عیاں ہے۔

وزیر اعظم صاحب جامعہ نعیمیہ میں تقریر کرتے ہیں کہ مذہبی بیانیہ تبدیل کیا جاوے۔ سوال یہ ہے کیا ریاست واقعی مذہبی بیانیہ تبدیل کرنا چاہتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ریاست کے مقتدرہ اداروں سے پوچھ لیا جائے، انھیں بدلا ہو بیانیہ بھاتا ہے؟ اب کیا مشکل ہے؟ ایک فیصلے سے بیانیہ تبدیل ہو جائے گا۔ تمام مدرسوں اور مسجدوں، گرجوں، مندروں، اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو قومیا لیجیے۔ کوئی عبادت گاہ کوئی مزار ایسا نہ ہو جو حکومت کے زیر انتظام نہ ہو۔ لیکن ٹھیریے! اس سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا، کہ جو ادارے قومیا لیے گئے ان کا کیا ہوا؟ وہ مزار جو محکمہ اوقاف کے زیر انتظام ہیں، ان کا انصرام کون دیکھتا ہے؟ بہت مایوس کن جواب حاصل ہوں گے۔ مایوسی کفر ہے، اُمید فردا رکھنی چاہیے۔ مان لیجیے ہم آنے والے دن کو خوب صوت بنائیں گے۔ بدعنوانی کو ختم کر دیں گے، بالآخر گڈ گورنینس کی مثال قائم کر دیں گے، تو یوں کہا جانا چاہیے خرابی کی بنیاد بیڈ گورنینس ہے۔

ریاست کی عمل داری وہاں دکھائی نہیں دیتی جہاں دکھائی دی جانی چاہیے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جسے مثالی کہا جا سکے۔ ان اداروں کی کارکردگی بہ تر بنانے پر زور دیجیے، درس گاہوں کی تعداد بڑھانے نیز حالت زار بہ تر کرنے کا اہتمام کریں، لوٹ‌ مار کرنے والے تاجروں پر گرفت مضبوط کریں، صحت کے میدان میں کتنا بڑا خلا ہے یہ محسوس کیجیے، روزگار کے مواقع پیدا کیجیے، بہتان تراشنے والوں کو کٹہرے میں لائیے۔ کم زور کی عزت کا تحفظ ریاست کو نہیں تو کس نے کرنا ہے؟ عوام کے لیے انصاف حاصل کرنا سہل کیجیے۔ اسی طرح کے ڈھیروں کام ہیں جن کی ادائی کے بنا آپ بیانیہ تبدیل کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں، تو یہ دیوانے کا خواب ہی کہلائے گا۔

پاکستانیوں پر ریاست کا بیانیہ بہت واضح ہے، کہ یہاں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہے۔ اس لیے ہر کوئی ”لاٹھی“ کی تلاش میں رہتا ہے۔ کوئی مذہبی لاٹھی اٹھائے ہوئے ہے، کوئی لسانی لاٹھی سے ہانک رہا ہے، امارت بھی ایک لاٹھی سا سہارا دیتی ہے، تو ہر کوئی امیر بننا چاہتا ہے، ایسے کو جائز نا جائز طریقے سے غرض نہیں ہے۔ کوئی چاہتا ہے سب لاٹھیوں کو معزول کیا جائے، اور اسے ایک لاٹھی تھما دی جائے؛ اور پھر یہ کہ کسی کے ہاتھ میں اصلی لاٹھی ہے، وہ ان سب کو ہانکتا چلا جاتا ہے، جو دوسروں کو ہانک رہے ہیں۔ اہل اقتدار اپنا علاج امریکا، جرمنی، انگیلنڈ جا کر کرواتے ہیں، عوام کو پاکستان سے محبت کا درس دیتے ہیں، اپنے تئیں بیس کروڑ عوام کے ہر دل عزیز رہ نما سڑکیں بند کر کے کسی بادشاہ کی طرح گذر جاتے ہیں، اور بیانیے کو تبدیل کرنے کی باتیں کرتے ہیں؛ ہے ناں عجیب بات؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran