چولستان کینال اور پنجاب کی زراعت


پاکستان میں پانی کی قلت کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، اور پنجاب، جو ملک کی زرعی معیشت کا مرکز ہے، پانی کی اس قلت سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ ایسے میں چولستان کینال کا منصوبہ متعارف کروایا گیا، جس کا مقصد چولستان کے صحرائی علاقوں کو سیراب کرنا اور وہاں زراعت کو فروغ دینا ہے۔ بظاہر یہ ایک ترقیاتی اقدام نظر آتا ہے، لیکن اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ نہر پنجاب کے زرخیز علاقوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے۔ بظاہر چولستان کو سندھ کے لئے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن نئی نہروں سے وسطی پنجاب کا کاشتکار بھی شدید متاثر ہو گا کیونکہ جب دریائے سندھ میں وافر پانی ہی موجود نہیں ہے تو نئی نہروں کے لئے پانی کہاں سے آئے گا؟

چولستان کینال نہ صرف پانی کی قلت کو بڑھا دے گی بلکہ پنجاب کی زرعی معیشت، کسانوں کی آمدنی اور ملکی سطح پر زرعی پیداوار کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ پنجاب کے زرعی رقبے کا بڑا حصہ پہلے ہی نہری پانی کی کمی اور زیرِ زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کے باعث دباؤ کا شکار ہے۔ چولستان کینال کے لیے پانی کا حصول پنجاب کے انہی دریاؤں اور نہروں سے کیا جا رہا ہے جو پہلے ہی جنوبی پنجاب کے کسانوں کے لیے ناکافی ہے۔ پنجاب کے کئی اضلاع، خاص طور پر بہاولپور، ملتان، وہاڑی، خانیوال، اور رحیم یار خان میں پہلے ہی پانی کی قلت کی شکایات موجود ہیں۔ اگر چولستان کینال کے لیے ان کا پانی مزید کم کر دیا گیا تو لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی براہِ راست متاثر ہوگی اس صورت میں کسان پانی کی قلت کے باعث ٹیوب ویل کا سہارا لیتے ہیں، لیکن زیرِ زمین پانی کی سطح پہلے ہی خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔ اگر چولستان کینال کے لیے پانی کا رخ بدلا گیا تو نہری پانی کی قلت مزید بڑھے گی اور کسان مہنگے ٹیوب ویل چلانے پر مجبور ہوں گے، جس سے زرعی لاگت میں اضافہ ہو گا۔ پانی کی کمی سے سب سے بڑا اثر فصلوں کی پیداوار پر پڑے گا۔ اگر نہری پانی کی دستیابی کم ہو گئی تو کئی اہم فصلیں متاثر ہوں گی، جن میں گندم، کپاس، گنا، اور چاول شامل ہیں۔ پنجاب پاکستان کی کل گندم کا 75۔ 80 % پیدا کرتا ہے۔ اگر چولستان کینال کے باعث پانی کی کمی ہوئی اور گندم کی پیداوار میں 10۔ 15 % کمی آئی، تو اس کا مطلب ہو گا کہ سالانہ 1.5 سے 2 ملین ٹن گندم کم پیدا ہوگی جو نقصان تقریباً 200 سے 250 ارب روپے بنتا ہے اس طرح جنوبی پنجاب میں کپاس ایک اہم نقد آور فصل ہے، اور پانی کی کمی کے باعث اس کی پیداوار میں 15۔ 20 % کمی کا خدشہ ہے، جو 1.2 سے 1.5 ملین گانٹھوں کے نقصان کے برابر ہوگی جو تقریباً 150 ارب روپے کا نقصان ہو گا۔ پنجاب میں چاول اور گنے کی پیداوار بھی کافی حد تک نہری پانی پر منحصر ہے۔ اگر چولستان کینال کی وجہ سے ان فصلوں کے لیے پانی کی دستیابی کم ہوئی تو چاول کی پیداوار میں 10۔ 12 % کمی ہو گی جس سے تقریباً 100 ارب روپے کا نقصان ہو گا اور ایسے ہی گنے کی پیداوار میں 12۔ 15 فیصد کمی سے تقریباً 80 ارب روپے کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ چولستان کینال کے باعث پانی کی کمی کے نتیجے میں پنجاب کو سالانہ کم از کم 500 سے 600 ارب روپے کا زرعی نقصان ہو سکتا ہے۔

پنجاب میں لاکھوں خاندان زراعت سے وابستہ ہیں۔ اگر زرعی پیداوار میں کمی آئی تو نہ صرف کسانوں کی آمدنی کم ہوگی بلکہ دیہی معیشت بھی شدید متاثر ہوگی۔ کم پیداوار کے نتیجے میں کھیت مزدوروں اور زراعت سے جڑے دیگر شعبوں (کھاد، کیڑے مار ادویات، ٹرانسپورٹ) میں کام کرنے والے افراد کی بیروزگاری میں اضافہ ہو گا۔ جب کسانوں کی آمدنی کم ہوگی، تو ان کے لیے بنیادی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پنجاب میں غربت مزید بڑھے گی، جس سے دیگر سماجی مسائل جنم لیں گے۔ اس کا ایک اور پہلو اگر دیکھیں تو پانی کی کمی نہ صرف زراعت بلکہ ماحولیات پر بھی گہرا منفی اثر آئے گا جیسے کہ اگر دریاؤں سے پانی کا زیادہ حصہ چولستان کینال کی طرف موڑا گیا تو دریا میں پانی کی مقدار کم ہوگی، جس سے مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کو نقصان پہنچے گا۔ پانی کی کمی سے زمین بنجر ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا، جس سے سیم و تھور کے مسائل میں اضافہ ہو گا۔

اس سے تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے بقول حکومت چولستان کینال کا مقصد چولستان میں زراعت کو فروغ دینا ہے، لیکن اس منصوبے کے نتیجے میں پنجاب کے زرعی اضلاع کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم، زرعی پیداوار میں ممکنہ کمی، کسانوں کی مشکلات، اور ماحولیاتی نقصان جیسے مسائل اس نہر کے متنازع ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں جس سے تقریباً یہ تو صاف ظاہر ہے کہ چولستان کینال وقتی فائدے کے بجائے پنجاب کی زرعی معیشت کے لیے ایک بڑا بحران ثابت ہو سکتی ہے، جس کے اثرات آنے والی نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔

پانی کی تقسیم ایک بہت حساس معاملہ ہے اس لئے پانی سے متعلق کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے قبل تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جانا نہایت ضروری ہے۔ چاروں صوبوں کی رضامندی کے بغیر پانی کی تقسیم میں کسی قسم کی تبدیلی کے کسی بھی منصوبے سے صوبائی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ چولستان کینال کے منصوبے پر جلد از جلد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر چھوٹے صوبوں کے خدشات دور کرنا بہت ضروری ہیں تاکہ پانی جیسے حساس معاملے پر نہ تو کسی کی حق تلفی ہو اور نہ صوبائی ہم آہنگی کو کوئی نقصان پہنچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments