قدیمی ہنر کی بقا: چاقو، قینچی اور اوزار تیز کرنے کا فن


دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے، جدید ٹیکنالوجی نے نہ صرف ہمارے رہن سہن کو بدلا بلکہ کئی پرانے پیشے بھی ناپید ہوچکے ہیں۔ انہی میں سے ایک فن چاقو، قینچی اور دیگر اوزار تیز کرنے کا ہے، جو کسی دور میں ہر گلی، محلے اور بازار میں عام تھا لیکن آج چند ہاتھوں میں محدود ہو چکا ہے۔

چاقو تیز کرنے کا فن صدیوں پرانا ہے، چاقو تیز کرنے کا کام زیادہ تر دستی چاکی (pedal driven sharpening wheels) سے کیا جاتا رہا۔ گلی محلوں میں گھومنے والے چاقو تیز کرنے والے افراد (جنہیں عام زبان میں ”چاقو تراش“ یا ”چاقو تیز کرنے والا“ کہا جاتا ہے ) 20 ویں صدی کے وسط تک عام نظر آتے تھے۔ حتیٰ کے ہمارے بچپن میں لاہور شہر کی گلیوں میں جو روزانہ یا ہفتہ وار لوگ آتے تھے اُن میں سے چند چاقو تیز کرنے والے بھی ہوتے تھے۔ ماضی میں ہر گھر میں چاقو، قینچی اور درانتی جیسے اوزار عام استعمال ہوتے تھے، جو وقتاً فوقتاً کند ہو جاتے تھے۔ ان کی دھار کو تیز کرنے کے لیے لوگ ”چاقو تیز کرنے والے“ ماہرین کی خدمات لیتے تھے، جو سائیکل یا ہاتھ سے چلنے والی مشینوں کے ذریعے یہ کام انجام دیتے تھے۔

یہ پیشہ آج بھی بعض محنت کشوں کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے۔ ایک چاقو تیز کرنے والا مزدور نہ صرف خود کما سکتا ہے بلکہ کم سرمائے میں اپنا چھوٹا کاروبار بھی شروع کر سکتا ہے۔ بس ایک موٹر یا ہاتھ سے چلنے والی گرائنڈر مشین، کچھ بنیادی اوزار اور محنت درکار ہوتی ہے۔ اس شعبہ میں ہم نے زیادہ تر پٹھان افراد کو دیکھا، اگرچہ ہمارے گاؤں محلوں میں لوہار خاندان کے لوگ سارا سال یہ کام کرتے تھے لیکن تہواروں خصوصاً بڑی عید (عیدِ قرباں ) پر بیشمار برساتی مینڈکوں کی طرح (جو صرف برسات میں نظر آتے ہیں ) پروفیشنلز جو چھری تیز کرنے والے اوزاروں کے ساتھ چوکوں میں یہ لوگ بیٹھ جاتے اور زیادہ تر اوزار خراب کرنے کا ذریعہ بنتے ایسے لوگوں کے کسٹمرز بھی ان لوگوں کی طرح اناڑی ہوا کرتے ہیں کیونکہ ماہرین ہمیشہ ماہرین پر اعتماد کرتے ہیں۔ پیشہ ور قصائی کبھی اپنے اوزاروں کو کسی اناڑی کے ہاتھوں میں نہیں دیتا۔

یہ پیشہ ان چند کاموں میں سے ایک ہے جن کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں۔ کچھ سو روپے یا چند ہزار روپے یا ایک سادہ سی مشین کے ساتھ کوئی بھی شخص یہ کام کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ دوسرے بڑے کاروبار کرنے سے قاصر ہیں، وہ اس جیسے چھوٹے لیکن کارآمد پیشے سے روزی کما سکتے ہیں۔

آہستہ آہستہ یہ شعبہ ختم ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ اس صنعت کے ختم ہونے کی بنیادی وجوہات میں کئی عوامل شامل ہیں۔ سب سے پہلی وجہ نئے آلات کی آمد ہے کیونکہ اب قصائی لوگوں نے جدید مشینیں اپنے استعمال میں لے آئے ہیں جو پلک جھپکتے ہی آسانی سے گوشت کاٹ دیتی ہیں جنہوں نے کئی لوگوں کا روزگار کھا لیا، کیونکہ اب مارکیٹ میں سستے اور پہلے سے تیز چاقو اور قینچیاں آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں، جنہیں مرمت کروانے کے بجائے نئے خرید لینا زیادہ آسان اور سستا سمجھا جاتا ہے، ایسا سمجھ لیں کہ یہ ڈسپوزیبل قسم کی آ رہی ہیں۔

دوسری اہم وجہ لوگوں کی بدلتی ہوئی ترجیحات ہیں ؛ آج کا دور تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور لوگ چیزوں کو مرمت کروانے کے بجائے فوراً نئی چیزیں خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تیسری اور سب سے تشویشناک وجہ مہارت کا فقدان ہے، کیونکہ نئی نسل اس کام میں دلچسپی نہیں لیتی، جس کے باعث ہنر مند کاریگر وقت کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں اور یہ صدیوں پرانا فن ماند پڑتا جا رہا ہے۔ کیونکہ بات آخرکار آمدنی (آؤٹ پٹ) کی ہوتی ہے۔ جب ایک نوجوان کئی گھنٹے اس فن میں محنت کرے، لیکن اسی وقت میں کسی اور شعبے سے کہیں زیادہ آمدن حاصل کی جا سکتی ہو، تو اس فن میں دلچسپی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ نئی نسل تو دور کی بات ہے، پرانے ماہرین بھی حالات سے مجبور ہو کر یہ شعبہ چھوڑتے جا رہے ہیں۔

چاقو، قینچی اور دیگر اوزار تیز کرنے کا کام صرف ایک پیشہ نہیں بلکہ ہمارا ثقافتی ورثہ ہے، جو کم سرمائے میں باعزت روزگار فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کسی بھی شعبے کو بچانا اور اسے ترقی دینا ہر دور میں ریاست، حکومت اور اس کے نظام کی اہم ذمہ داری رہی ہے۔ چاقو تیز کرنے جیسے قدیمی اور محنت طلب ہنر کو اگر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا جائے تو یہ نہ صرف مزدور طبقے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں محنت کش طبقے کی اہمیت کو بھی اجاگر کرے گا۔

اس شعبے میں ٹیکنالوجی کا استعمال، مشینی اوزاروں کی بہتری اور جدید مارکیٹنگ ذرائع جیسے سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر سے جدت لائی جا سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ہنر کو محفوظ کرنے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کیے گئے ہیں، جن سے وہاں نہ صرف ہنر زندہ رہا بلکہ روزگار کے مواقع میں بھی اضافہ ہوا۔ پاکستان میں بھی اگر حکومت یا فلاحی تنظیمیں اس شعبے کو دوبارہ فروغ دینے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں، تو یہ پیشہ ایک بار پھر فعال ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ماہرین کی خدمات کی تشہیر، تربیتی ورکشاپس کا انعقاد اور چھوٹے کاروبار شروع کرنے والوں کو مالی و تکنیکی معاونت فراہم کر کے اس شعبے کو ایک بار پھر ”کاروبار کا کاروبار اور روزگار کا روزگار“ بنایا جا سکتا ہے۔ بس ضرورت ہے تو اسے جدید طریقوں کے ساتھ دوبارہ زندہ کرنے کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments