قدرتی وسائل پر خودکشی: مائنز اینڈ منرلز بل یا نیا عمرانی معاہدہ؟
جب اٹھارہویں ترمیم آئی، تو ہم نے سمجھا کہ تاریخ کا پہیہ بالآخر درست سمت میں چل پڑا ہے۔ صوبوں کو ان کے وسائل پر حق ملنا کوئی عام بات نہ تھی۔ یہ ایک آئینی معاہدہ تھا، جس میں ریاست نے اعتراف کیا کہ وفاق کی اکثریت، اکثریت کی مرضی سے نہیں بلکہ باہمی رضامندی سے چلتی ہے۔ مگر آج، وہی صوبے اپنے حاصل کردہ حقوق خود مرکز کے قدموں میں رکھ کر یہ سوال اٹھا رہے ہیں۔ کیا یہ آئینی خودکشی ہے یا کوئی پوشیدہ سودا؟
مائنز اینڈ منرلز ترمیمی بل 2024 کوئی عام قانون نہیں۔ یہ ریاستی ساخت میں ایک خاموش دھماکہ ہے۔ بلوچستان کے بعد اب خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی یہ بل پیش ہو چکا ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ جن صوبوں نے دہائیوں تک مرکز کے ظلم و استحصال کا رونا رویا، وہ اب اپنی خودمختاری خود تیاگ رہے ہیں۔
تحریک انصاف: دعوے، دعائیں، تضاد بیانی
تحریک انصاف کل تک وسائل پر مرکز کی اجارہ داری کو ظلم کہتی تھی، آج اسی کے صوبے میں قدرتی وسائل مرکز کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔ کہیں یہ عمران خان کی رہائی کی کوئی خفیہ شرط تو نہیں؟ یا کوئی ایسی ”ڈیل“ جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل ہو کر بھگتنا پڑے گا؟
پارٹی کے اندر بھی اس بل پر عجیب تضاد ہے :
کچھ رہنما کھل کر مخالفت کر رہے ہیں۔
کچھ خاموشی کو حکمتِ عملی قرار دے رہے ہیں۔
اور کچھ اس قانون کو ”سیاسی ریلیف“ سے جوڑ رہے ہیں۔
یہ سیاسی ابہام نہیں، سیاسی اخلاقیات کی شکست ہے۔
تحریک انصاف کو طے کرنا ہو گا:
کیا وہ ریاستی خودمختاری کے ساتھ کھڑی ہے یا اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار؟
”اسٹریٹجک منرلز“ : زبان بدلی، مقصد وہی پرانا
اس بل میں ایک نہایت چالاک اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے : اسٹریٹجک منرلز۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دفاعی اہمیت کا لیبل لگا کر کسی بھی خطے کو مرکز کی ملکیت قرار دیا جا سکتا ہے۔
جہاں خزانہ ہو، وہاں کا کنٹرول مرکز کے پاس، چاہے زمین کسی کی ہو، حق کسی کا ہو۔
یہ کوئی نئی واردات نہیں۔ یہ وہی نو آبادیاتی منطق ہے جس میں زمین تمہاری، خزانہ ہمارا۔
افغانستان کا ماڈل، پاکستان میں آزمائشی مرحلے میں؟
افغانستان پر امریکی یلغار صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں تھی۔ اس کی سرزمین میں موجود نایاب معدنیات۔ لیتھیم، کوبالٹ، ریئر ارتھ۔ عالمی سرمایہ داری کے لیے زبردست کشش رکھتی تھیں۔
پاکستان میں بھی یہی ذخائر بلوچستان، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں پائے گئے ہیں۔ اب اگر ان ہی وسائل پر ”اسٹریٹجک“ لیبل لگا کر غیر ملکی کمپنیوں کو ٹھیکے دیے جائیں، تو کیا یہ نئے دور کا خاموش کالونیل ازم نہیں؟
آئی ایم ایف ہو یا امریکی کمپنیاں، سب کی نگاہ معدنیات پر ہے۔ اور بدقسمتی سے ہمارا سیاسی طبقہ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ کبھی قرض کے نام پر، کبھی سرمایہ کاری کے خواب میں۔
عوامی مینڈیٹ، تختہ مشق بن گیا؟
اس بل کے ذریعے عوام سے ان کی زمین، ان کا اختیار اور ان کا اعتماد چھینا جا رہا ہے۔ وہی عوام جنہوں نے صوبائی خودمختاری کے لیے ووٹ دیا، آج انہی کے نام پر ان کے حقوق گروی رکھے جا رہے ہیں۔
یہ صرف آئینی مسئلہ نہیں، جمہوری استحصال ہے۔
اور وہ جماعت جو ”ریاستِ مدینہ“ کی دعویدار تھی، آج اسی ریاست کے وسائل پر سودا کر رہی ہے۔
سوال باقی ہے : کیا اٹھارہویں ترمیم محض نمائشی تھی؟
اگر ہر حساس معاملے میں مرکز کو اختیار دینا ہے، اگر ہر خزانے پر اسٹریٹجک لیبل چسپاں کرنا ہے، اگر ہر زمین پر قبضے کو قومی سلامتی کا نام دینا ہے۔ تو پھر اٹھارہویں ترمیم کی کیا وقعت باقی رہی؟
کیا ہم واقعی ایک ایسی ریاست بننے جا رہے ہیں جہاں آئین کتاب میں قید ہو اور فیصلے پردے کے پیچھے ہوں؟
وقت آ گیا ہے کہ سنجیدہ سیاسی قیادت، صحافت اور شہری شعور اس بل کے پس پردہ عزائم کو سمجھے۔ یہ صرف ایک قانونی ترمیم نہیں، ریاست کے ڈھانچے کی ازسرِ نو تشکیل ہے، وہ بھی خاموشی اور خام خیالی میں۔
اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی، تو کل ہمارے پاس زمین ہوگی نہ اختیار، اور نہ ہی کوئی ندامت کا وقت۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).