پروفیسر خورشید احمد: سینیٹ کا نظریاتی وقار اور پارلیمانی دانش کا استعارہ


پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں اگر کوئی شخصیت علم و استدلال، تہذیب و متانت، آئینی بصیرت اور فکری استقامت کا مجسم پیکر نظر آتی ہے تو وہ پروفیسر خورشید احمد ہیں۔ وہ محض ایک سیاستدان نہیں، ایک نظریاتی مفکر، آئینی رہنما، اور اسلامی ریاست کے فکری معمار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

فاروق احمد لغاری، جو بعد میں صدرِ پاکستان کے منصب پر فائز ہوئے، سینیٹ میں پروفیسر خورشید احمد کی تقاریر کو منگوا کر پڑھا کرتے تھے۔ ان کا یہ اعتراف۔ ”خورشید صاحب میرے استاد ہیں“ ۔ اس بات کی گواہی ہے کہ ایوانِ بالا میں ان کی موجودگی صرف جماعت اسلامی کے نمائندے کی حیثیت سے نہ تھی، بلکہ وہ قومی دانش کی علامت تھے۔

سینیٹ میں خدمات کا دورانیہ:

پروفیسر خورشید احمد دو بار سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے :
• پہلا دور: مارچ 1985 تا مارچ 1997
• دوسرا دور: مارچ 2006 تا مارچ 2012

اس طویل پارلیمانی سفر کے دوران انہوں نے نہ صرف قانون سازی میں بھرپور کردار ادا کیا، بلکہ قومی نظریہ، عوامی حقوق، اسلامی معیشت، آئینی توازن، اور جمہوریت کی روح پر مبنی سینکڑوں علمی و فکری تقاریر کیں۔

تقریر نہیں، فکری رہنمائی

پروفیسر خورشید کی تقاریر اخباری سرخیوں یا میڈیا کی سنسنی کے لیے نہیں ہوتیں۔ وہ جب بولتے تھے تو ہر لفظ سے تیاری جھلکتی، ہر نکتہ دلیل سے مزین ہوتا، اور ہر تجویز قابلِ عمل ہوتی۔ اسلام، پاکستان، آئین، جمہوریت، قانون، عوامی حقوق، تعلیم، معیشت۔ ہر موضوع پر ان کی گرفت نہ صرف مضبوط تھی بلکہ اس میں فکری عمق اور نظریاتی وضوح بھی ہوتا۔

ان کی تقاریر آج باقاعدہ کتابی صورت میں محفوظ ہیں، جو ان کی علمی میراث کا حصہ بن چکی ہیں۔

پروفیسر خورشید احمد کی سینیٹ تقاریر پر مبنی اہم کتب

1۔ پاکستان میں نفاذِ اسلام: سینیٹ تقاریر

یہ کتاب 1994 میں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) اسلام آباد کے تحت شائع ہوئی۔ اس میں پروفیسر صاحب کی سینیٹ میں کی گئی وہ تقاریر شامل ہیں جو پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ، آئینی تشریح، اور ریاستی نظریے کی وضاحت پر مبنی ہیں۔

2۔ جمہوریت، پارلیمنٹ اور اسلام

اس کتاب میں انہوں نے جمہوریت اور اسلامی اصولوں کے باہمی تعلق کو سینیٹ میں پیش کیے گئے استدلال کے ذریعے واضح کیا۔ یہ تقاریر اس دلیل کی عکاس ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کا مطلب مغرب زدہ طرز حکومت نہیں بلکہ شورائی اسلامی نظام ہے۔

3۔ آئین، اختیارات کا توازن اور طرزِ حکمرانی

یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے : پہلا حصہ ترجمان القرآن میں شائع شدہ مضامین پر مشتمل ہے، جبکہ دوسرا حصہ سینیٹ میں پیش کی گئی تقاریر پر مبنی ہے۔ یہ کتاب آئین کی روح، اختیارات کی تقسیم، اور وفاقی طرز حکمرانی پر ایک مستند رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

4۔ پاکستان کا جمہوری سفر: پارلیمنٹ کا کردار اور روایات

یہ کتاب ”ارمغانِ خورشید“ سیریز کا حصہ ہے، جس میں پروفیسر صاحب کی تقاریر کے ذریعے پاکستان کے جمہوری ارتقا، پارلیمنٹ کی حیثیت، اور روایتی و نظریاتی مباحث کو سمیٹا گیا ہے۔

5۔ پاکستان کی نظریاتی اساس، نفاذِ شریعت اور مدینہ کی اسلامی ریاست

یہ کتاب ان تقاریر اور تحریروں پر مشتمل ہے جن میں انہوں نے پاکستان کی نظریاتی بنیاد، شریعت کے عملی نفاذ، اور مدینہ منورہ کے ماڈل ریاست کے تصور کو پارلیمانی سطح پر اجاگر کیا۔

پاکستان کے معاشی بحران پر پروفیسر خورشید احمد کی بصیرت

پروفیسر خورشید احمد کی سینیٹ میں کی گئی تقاریر میں ایک اہم پہلو پاکستان کے معاشی مسائل اور ان کے حل پر ان کی بصیرت ہے۔ خصوصاً ہر سال بجٹ پر بحث کے دوران انہوں نے پاکستان کے معاشی حالات، مشکلات اور ان کے اسباب پر گہرائی سے تجزیہ پیش کیا۔

پروفیسر خورشید احمد نے بار بار اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان کا معاشی بحران صرف بدانتظامی کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس میں سودی نظام کی تباہ کاریوں کا بھی اہم کردار ہے۔ انہوں نے سودی معیشت کے اثرات پر تفصیل سے گفتگو کی اور اسلامی نظام معیشت اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا یہ موقف تھا کہ اگر ان کی دی گئی تجاویز پر بیس سے تیس فیصد بھی عمل درآمد ہوتا تو آج پاکستان معاشی بحران کا شکار نہ ہوتا۔

یہ ان کی بصیرت اور حکمت عملی کا غماز ہے کہ انہوں نے نہ صرف بحران کی تشخیص کی بلکہ اس کے حل کے لیے عملی تجاویز بھی پیش کیں، جو آج بھی اہمیت رکھتی ہیں۔

کشمیر کے مسئلے پر پروفیسر خورشید احمد کا جاندار کردار

پروفیسر خورشید احمد نے کشمیر کے مسئلے پر سینیٹ میں بھرپور آواز اٹھائی اور کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی۔ انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی ”شہ رگ“ قرار دیا اور بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو بے نقاب کیا۔ پروفیسر خورشید نے نہ صرف اس مسئلے پر پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر اجاگر کیا بلکہ کشمیر کی آزادی اور پاکستان سے الحاق کے حق میں دلائل بھی دیے۔

ان کی تقاریر میں کشمیر کے مسئلے کو ایک قومی فریضے کے طور پر پیش کیا گیا۔ انہوں نے سینیٹ میں کشمیر کے عوام کے حقوق، بھارت کی ریاستی دہشت گردی، اور عالمی برادری کی خاموشی پر مسلسل بات کی۔ پروفیسر خورشید احمد کا یہ موقف تھا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل صرف مذاکرات اور بات چیت میں نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کے احترام میں ہے۔

ان کی یہ تقاریر آج بھی ایک رہنمائی کا کام کرتی ہیں اور کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی پروفیسر خورشید احمد کی محنت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

پروفیسر خورشید احمد نے ایوانِ بالا کو فقط بحث و مباحثہ کا فورم نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جہاں نظریہ، علم، دلیل، تہذیب اور آئینی شعور ہم آہنگ ہو کر بولتے تھے۔ ان کا انداز خطابت شائستگی، علمی وقار، اور فکری گہرائی سے بھرپور تھا۔ وہ بولتے کم اور سکھاتے زیادہ تھے۔

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ جب کبھی سنجیدگی، دیانت، فکری بلوغت اور آئینی وفاداری کی مثال تلاش کرے گی، تو پروفیسر خورشید احمد کا نام نہایت احترام سے لیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments