لڑکی کا معاملہ تھا۔۔۔ بس کسی طرح بچ نکلے


لاہور کے لاری اڈے پر امی جان بس سے اتریں تو ان کے ساتھ برقعے میں لپٹی ایک لڑکی بھی تھی۔بیٹا اس بچی کا موبائل فون کھو گیا ہے۔ اس کے والد اسے لینے آتے ہی ہوں گے، ہم تب تک اس کے ساتھ انتظار کر لیتے ہیں۔امی جان نے بتایا اور ہم وہیں انتظار کرنے لگے۔شام رات سے گلے مل رہی تھی، کچھ دیر گزری تو والدہ نے اپنا فون اسے دیا اور والد کو کال کرنے کا کہا۔ اس نے نمبر ملا کر فون کان سے لگایا، اور کہنے لگی، ابو فون نہیں اٹھا رہے۔لڑکی نے بتایا کہ اس کے والد صاحب قصور ہوتے ہیں، وہیں سے لینے آ رہے ہیں، شاید رش کی وجہ سے دیر ہو رہی ہے۔

کچھ دیر بعد والدہ نے مجھے کہا تم اپنے فون سے کال کرو۔ امی جان کے فون سے ڈائل کیے گئے نمبروں کی فہرست دیکھی تو حیرت ہوئی۔ جو نمبر لڑکی نے ڈائل کیا وہ فہرست میں موجود نہ تھا۔خیر اس سے پوچھ کر نمبر ملایا اور فون کان سے لگایا۔

تیسری ہی بیل پر کسی نے کال وصول کر لی۔ میں نے فون لڑکی کی طرف بڑھا دیا۔ وہ کچھ دیر گفتگو کرتی رہی اور کہنے لگی، ابو لینے کے لیے پہنچنے ہی والے ہیں آپ بے شک چلے جائیں۔میری والدہ نے کہا کچھ دیر کی بات ہے تو ہم رک جاتے ہیں۔ آپ کے والد لینے آ گئے تبھی جائیں گے۔
اب اندھیرا چھا چکا تھا، کچھ دیر کا انتظار خاصا طول پکڑ گیا تو امی جان نے پھر اسے اپنے والد کو کال ملانے کا کہا۔ اس بار اس نے بات کر کے فون میری والدہ کی جانب بڑھا دیا۔ والدہ نے سوچا وہ راستہ سمجھنا چاہ رہے ہوں گے، اس لیے فون مجھے پکڑا دیا۔

میں نے پوچھا، آپ کس طرف سے آ رہے ہیں تاکہ آپ کو راستہ بتا سکوں۔ لیکن دوسری طرف کی بات سن کر چکرا گیا۔

وہ صاحب کہنے لگے، میں اس لڑکی کو نہیں جانتا، پتہ نہیں کیوں مجھے فون کر رہی ہے۔

میں تو سناٹے میں آ گیا۔ سمجھ نہیں آئی کہ کیا کیا جائے۔ لڑکی کو بتایا کہ وہ صاحب تو یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اس نے حیرت سے کہا، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں

پھر بات کرتی ہوں۔ میں کھٹک چکا تھا، اب اس نے فون ملایا تو میں گفتگو سننے کو قریب ہو گیا۔

کہنے لگی، آپ آ رہے ہیں نا؟ اچھا۔ آپ نہیں آتے تو میں خود آ جاتی ہوں….

اس نے بتایا تھا کہ والد قصور میں کوئی کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن کہاں کرتے ہیں یہ نہیں معلوم۔ اور جب اس نے کہا میں خود آ جاتی ہوں تو مجھے مزید کھٹکا ہوا۔

فون بند کر کے کہنے لگی، ابو کو شور کی وجہ سے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی تھی، اس لیے ایسا کہہ دیا۔ وہ بس آنے ہی والے ہیں آپ بے شک چلے جائیں۔
میں اس کی طرف سے شک میں مبتلا ہو چکا تھا، اس لیے امی جان سے کہا آئیں گھر چلتے ہیں۔ لیکن وہ تنہا لڑکی کو یوں چھوڑ جانے پر آمادہ نہ تھیں۔ دوبارہ اسی نمبر پر فون ملایا، اب امی جان نے بات کی تو فون پر موجود شخص نے پھر یہی کہا کہ وہ تو اس لڑکی کو جانتا تک نہیں۔

معاملے میں واضح طور پر کوئی گڑ بڑ تھی، لیکن میری سادہ والدہ کہنے لگیں، شاید یہ اپنے ابو کا نمبر بھی بھول گئی ہے، ہم اسے اپنے گھر لے چلتے ہیں۔ جب اسے نمبر یاد آئے گا تو رابطہ کر لے گی۔

ارے کیسے اسے گھر لے جائیں؟ شاید وہ لڑکی گھر سے بھاگ کر آئی تھی۔ شاید جس شخص کے کہنے پر وہ گھر سے بھاگی ہے اب وہ اسے اپنانے سے انکاری ہے۔ شاید یہ کوئی جرم کر کے فرار ہوئی ہو۔ آج کل تو دہشت گرد بھی خواتین کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اسے کسی سہولت کار نے وصول کرنا ہو لیکن ہمیں دیکھ کر سامنے نہ آ رہا ہو۔دس قسم کے خدشے میرے ذہن میں کلبلا رہے تھے۔

آخر کو میں نے تجویز دی کہ اسے واپسی کی بس پر بٹھا دیتے ہیں۔ یوں ہم پر کوئی ذمہ داری بھی نہ رہے گی۔ اب مسئلہ یہ ہوا کہ رات کے اس پہر لڑکی کے علاقے کو کوئی بس نہ جاتی تھی۔ لاری اڈے سے معلوم کیا، ایک بس نے رات ایک بجے روانہ ہونا تھا، جو صبح چھ بجے کے قریب منزل پر پہنچتی۔ امی جان نے فیصلہ کیا کہ یہ لڑکی ہمارے ساتھ گھر چلے گی اور رات ایک بجے ہم اسے بس پر سوار کرا دیں گے۔

میں اس پریشانی میں مبتلا کہ اگر تو یہ لڑکی گھر سے بھاگی ہے، یا کسی واردات میں ملوث ہے تو اسے گھر لے جانے سے ہم کسی پریشانی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

گاڑی میں بیٹھ کر گھر کو روانہ ہوئے تو میں نے پوچھا، آپ کیا کرتی ہو؟ کہنے لگی پڑھتی ہوں۔ کس جماعت میں؟ بارہویں میں۔ کس جگہ؟ یہاں لاہور میں ہی۔ کس کالج میں؟ اقبال یونیورسٹی میں۔

ہیں! اول تو ملک میں اس نام کی کوئی یونیورسٹی نہیں۔ کیا وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کہنا چاہتی ہے؟
کہاں پر ہے یہ اقبال یونیورسٹی؟ مجھے معلوم نہیں میں تو صرف پرچے دینے آتی ہوں۔ لیکن جس جگہ سے اس کا تعلق ہے، وہاں کے لوگ تو پرچے دینے

راولپنڈی جاتے ہیں؟ آپ کے مضامین کیا ہیں؟ ڈاکٹری۔

ہر بیان میں کھوٹ۔ آخر یہ معاملہ ہے کیا؟

میں نے سخت لہجے میں پوچھ ہی لیا، کیا آپ گھر سے بھاگ کر آئی ہو؟

اس نے آہستہ سے جواب دیا نہیں۔

گھر میں کسی اور کا نمبر یاد ہے؟ جواب اس بات بھی نفی میں تھا۔

مزید سوالات سے معلوم ہوا کہ بڑے بھائی روزی کمانے سعودی عرب گئے ہیں۔ گھر میں ان کی والدہ اور چھوٹے بھائی ہوتے ہیں۔ گھر میں فون صرف اسی کے پاس تھا جو راستے میں کھو گیا۔ والد قصور میں چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں۔ اسے بس اپنے علاقے میں اپنے گھر کا راستہ معلوم ہے، باقی نہ اسے کسی کا نمبر معلوم ہے نہ ہی پتہ۔

میں نے یہ تجویز بھی دی کہ پولیس اسٹیشن جا کر یہ معاملہ رپورٹ کر دیا جائے۔ لیکن پولیس سے ہر شریف آدمی گھبراتا ہے، اس خیال کو بھی عملی جامہ نہ پہنایا۔

خیر صاحب۔ ان خاتون کو گھر لے آئے۔ یہاں انہوں نے برقع اتارا تو اندر سے ایک بچی برآمد ہوئی۔ عمر یہی کوئی پندرہ سولہ برس۔ اب ہم نے ان سے نام پوچھا۔ جواب ملا، س۔ والد، چچا، ماموں، بھائیوں وغیرہ کے نام دریافت کیے گئے۔ انٹرنیٹ پر وہاں کا نقشہ کھول کر ان کے گھر کا محل وقوع وغیرہ معلوم کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ فلاں مسجد کے قریب فلاں مارکیٹ ہے، اس مارکیٹ کے قریب ایک محلہ ہے۔ وہاں ان کا گھر ہے۔ ہمارے والد صاحب نے انٹرنیٹ پر ان کے علاقے کے کسی سرکاری دفتر کا نمبر تلاش کیا۔ وہاں کی میونسپلٹی کا نمبر ملا، فون کیا تو چوکیدار صاحب نے اٹھایا۔ مدعا بتایا تو انہوں نے مدد کا وعدہ کیا۔

غنیمت ہے کہ چھوٹے علاقوں میں لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ دس منٹ میں معلوم ہو گیا کہ فلاں صاحب کی صاحب زادی دوپہر سے لاپتہ ہیں۔ لیکن ان کا نام تو ’ن ‘ہے۔ باقی تمام تفصیلات وہی۔ والد، چچا، ماموں، بھائیوں کے نام تک وہی، والد کی جائے سکونت بھی قصور۔ لیکن لاپتہ لڑکی کا نام ’ن‘، اور ہمارے پاس موجود لڑکی کا نام’ س‘۔

یا خدا یہ کیا معمہ ہے؟

اب لاپتہ لڑکی کے گھر والوں کا فون آ گیا۔ کہنے لگے ہماری ’ن‘ سے بات کرائیں۔ ہم نے کہا یہ تو اپنا نام ’س‘ بتاتی ہیں۔ وہ کہیں آپ بات تو کرائیں۔ ’س‘ نے بات کی اور انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا۔ وہ کہنے لگے، بچی ہماری ہی ہے، ناراضی میں پہچاننے سے انکار کر رہی ہے، ہم تو آپ کے گھر آنے کے لیے نکل پڑے ہیں۔

یہ صورتحال تو سلجھنے کے بجائے مزید الجھ گئی۔

اگر وہ اس کے گھر والے نہ ہوئے لیکن پھر بھی لے جانے پر اصرار کیا تو ہم کیسے تصدیق کریں گے؟ اگر انہوں نے لے جانے کے لیے زبردستی کی تو ہم کیسے نمٹیں گے۔ اگر وہ لوگ اسی لڑکی کے گھر والے ہوئے اور غصے میں آ کر اسے کوئی نقصان پہنچا دیا؟ یا لڑکی نے خوف یا پریشانی میں خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیا تو پھر کیا ہو گا؟

ایک ایک لمحہ پہاڑ بن کر گزرنے لگا۔ ہر سیکنڈ کوئی نیا خدشہ سر اٹھاتا اور ہم کانپ کانپ جاتے۔

خیر وہ صاحبان ٹیلی فون پر پتہ پوچھتے ہوئے ہمارے گھر آن پہنچے۔ دروازے پر ان کا استقبال کیا تو بھلے سے لوگ معلوم ہوئے۔ انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ لڑکی کا والد ہونے کے دعوے دار صاحب سے شناختی کارڈ طلب کیا۔ شناختی کارڈ پر درج نام وہی تھا جو بچی اپنے والد کا بتا چکی تھی، آبائی پتہ بھی وہی۔ اب ان سے دیگر تفصیلات پوچھیں۔ لڑکی کے چچا، ماموں اور بھائیوں کے نام۔ انہوں نے ہو بہو وہی بتائے جو ’س‘ ہمیں بتا چکی تھی۔

تب ہم نے ڈرتے ڈرتے ’س‘ کو بلایا۔ وہ آنے پر آمادہ نہ تھی، لیکن اسے یقین دلایا کہ تمہیں کچھ نہ ہونے دیں گے۔ جب ڈرائنگ روم میں آئی تو اس کے والد نے اٹھ کر سر پر رکھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ وہ سعادت مندی سے قریب آئی اور اپنا سر جھکا دیا، کسی غیریت کا اظہار نہ کیا۔ تب ہمیں اطمینان ہوا کہ انہی کی بیٹی ہے۔ انہوں نے فون کر کے اس کی والدہ سے بات کرائی۔ اس نے بات کر لی اور ہمیں یقین ہوا کہ لڑکی کو لانے والے اس کے اپنے ہی ہیں۔

سر سے ایک بوجھ اترا۔

معلوم ہوا کہ ایک ماہ قبل ہی اس کی شادی ہوئی، شوہر سے کسی بات پر تکرار ہوئی تو ناراض ہو کر گھر سے نکل کھڑی ہوئی۔ یہاں لاہور میں کسی کو جانتی تھی نہ یہ طے کیا تھا کہ آگے کیا ہو گا۔ ایسا نادان غصہ بھی کسی کو نہ آئے۔

خیر صاحب۔ معاملہ خیر خیریت سے اپنے انجام کو پہنچا۔ وہ راضی خوشی اپنے والد کے ساتھ چلی گئی اور ہم ایک بہت بڑی ذمہ داری سے سرخرو ہوئے۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood