پاکستان کے خلاف بھارت کے یک طرفہ اقدامات
مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گرد حملہ کے بعد بھارتی حکومت نے بعض غیر ضروری اور انتہائی اقدامات کیے ہیں اور بالواسطہ طور سے پاکستان پر اس حملہ کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ اعلانات عملی طور سے تو کسی خاص اہمیت کے حامل نہیں ہیں لیکن اس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات مزید خراب ہوں گے اور دوطرفہ طور سے بے بنیاد الزام تراشیوں کی راہ ہموار ہو گی۔
گزشتہ روز ان سطور میں اس افسوسناک سانحہ اور انسانی جانوں کے ضیاع کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے عرض کیا گیا تھا کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے تعلقات میں دوری کی بجائے، باہمی تعاون میں اضافہ ضروری ہو گا۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ پہلگام میں ہونے والے حملے میں کسی نہ کسی طرح پاکستان ملوث ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی لاتعداد کارروائیوں میں بھارتی ایجنسیوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ دو ہمسایہ اور ایٹمی صلاحیت کی حامل ریاستوں کے درمیان ایسی الزام تراشی سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی بجائے تناؤ کم کرنے اور معاملات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا چاہیے تاکہ خطے میں دہشت گردی کا قلع قمع ہو سکے اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کو غیر ضروری طاقت حاصل نہ ہو۔
تاہم پہلگام میں دو درجن سے زائد شہریوں کی ایک اندوہناک فائرنگ میں ہلاکت کے بعد بھارتی ذرائع نے فوری طور سے پاکستان پر الزام تراشی شروع کردی تھی۔ پاکستانی محققین اور صحافیوں نے جو معلومات جمع کی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سہ پہر تین بجے ہونے والے اس حملہ کے چند منٹ بعد ہی بھارت کے انتہاپسند گروہوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اور جموں میں بی جے پی نے ایک گھنٹے کے اندر احتجاجی مظاہرہ کا اہتمام کرتے ہوئے پاکستان پر باقاعدہ الزام بھی عائد کر دیا تھا۔ یہ صورت حال اس حوالے سے ناقابل فہم ہے کہ بھارتی حکام، سکیورٹی فورسز اور پولیس ابھی تک یہ بتانے سے قاصر ہے کہ یہ حملہ کرنے والے کون لوگ تھے اور ان کا تعلق کس تنظیم یا گروہ سے تھا۔ لیکن جن عناصر کا باقاعدہ تحقیقات اور معاملہ کے عملی پہلوؤں سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ پورے یقین سے اس کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ اب بھارتی حکومت نے سرکاری طور پر اسی غیر ذمہ دارانہ رویہ کی تائید کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ یوں یہ واضح کیا ہے کہ جیسے یہ حملہ پاکستان نے ہی کرایا ہو۔
آج ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے بتایا کہ ’کیبنٹ کمیٹی برائے سکیورٹی (سی سی ایس) کا اجلاس وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ہوا۔ سی سی ایس کو بریفنگ میں سرحد پار سے دہشت گردی کے حملے کے روابط کو سامنے لایا گیا۔ یہ نوٹ کیا گیا کہ یہ حملہ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کے کامیاب انعقاد اور اقتصادی ترقی کی طرف مسلسل پیش رفت کے تناظر میں کیا گیا۔ اس حملے کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے سی سی ایس نے اقدامات کا فیصلہ کیا ہے کہ 1960 کا سندھ طاس معاہدہ اس وقت تک معطل رہے گا جب تک پاکستان سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ نے یہ اعلان بھی کیا کہ اٹاری سرحدی چیک پوسٹ (واہگہ بارڈر) بھی فوری طور پر بند کر دی جائے گی۔ پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں اور بھارت میں موجود تمام پاکستانیوں کو 48 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کی وارننگ دی گئی ہے‘ ۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ بھارتی حکومت کا ترجمان بھی یہ مان رہا ہے کہ یہ اقدامات عارضی نوعیت کے ہیں اور شاید ان پر پوری طرح عمل درآمد کی نوبت بھی نہ آ سکے۔ بھارتی حکومت کا یہ دعویٰ کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی سے دست بردار ہو لغو اور غیر ضروری ہے۔ بھارت کے پاس اس حوالے سے کوئی شواہد موجود ہوتے تو وہ ان کے بارے میں کھل کر بات کرتا اور الزامات کی بجائے باقاعدہ دستاویزی شواہد کے ساتھ پاکستان کو یہ مسئلہ ختم کرنے کے لیے انگیج کرنے کی کوشش کی جاتی۔ تاہم دیکھا جاسکتا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت اس افسوسناک واقعہ کو سیاسی و سفارتی فائدہ حاصل کرنے کے لے استعمال کر رہی ہے۔ اسی لیے سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کو سیاسی بیانیہ عام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جسے بھارتی حکومت کی بدنیتی ہی کہنا چاہیے۔
کسی سانحہ کے بعد شواہد تلاش کرنے اور انہیں باقاعدہ دستاویزی صورت میں سامنے لانے کی بجائے چند گھنٹے کے اندر ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کو شدید محدود کرنے سے نہ تو سکیورٹی صورت حال ٹھیک ہوگی، نہ حملہ آوروں کا سراغ ملے گا اور نہ ہی ان عوامل کی اصلاح ہو سکے گی جو بھارت یا پاکستان میں تشدد اور دہشت گردی کا سبب بنتے ہیں۔ البتہ اس قسم کے طرز عمل سے نریندر مودی قومی سطح پر اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو وقتی طور سے دبا سکیں گے، مقبوضہ کشمیر میں اس مطالبے کو مزید کچھ مدت کے لیے پس پشت ڈالا جا سکے گا کہ 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے جو فیصلے کیے تھے، انہیں واپس لیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس پارٹی نے اسی مطالبے کو انتخابی ایجنڈا بنا کر انتخاب جیتا تھا۔ لیکن جیسا کہ سیاسی لیڈروں کا وتیرہ ہوتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس تگ و دو میں رہتے ہیں کہ کیسے اقتدار پر زیادہ سے زیادہ مدت تک قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ عمر عبداللہ بھی یہی محسوس کرتے ہیں کہ اقتدار کے لیے انہیں کشمیری عوام سے زیادہ نئی دہلی میں بھارتی سرکار کو خوش رکھنے کی ضرورت ہے۔
اب ایک طرف بھارتی حکومت اور اس کی شہ پر پروپیگنڈا کرنے والے عناصر پاکستان کو پہلگام حملے کا الزام دے کر واقعہ کے اصل عوامل کو نظر انداز کرنے میں مصروف ہیں اور نعروں پر مبنی سیاسی بیانات کے ذریعے ایک خاص ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تو دوسری طرف پاکستان میں بھی ایسے عناصر کی کمی نہیں ہے جو اس حملہ کو فالس فلیگ آپریشن قرار دے کر اسے بھارتی حکومت کی چال کہہ رہے ہیں تاکہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی ملک میں موجودگی کو اس واقعہ کے بعد پاکستان کے خلاف حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ جس قدر بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ طریقہ کسی ثبوت کے بغیر پاکستان پر الزام عائد کرنا ہے، بھارتی حکومت پر ایک ’جعلی حملہ‘ میں اپنے ہی شہریوں کو مروانے کا الزام لگانا بھی اتنا ہی لغو اور ناقابل قبول ہے۔ لیکن اگر بھارت یک طرفہ طور سے ایک افسوسناک سانحہ کے بعد پاکستان کو نشانہ بنائے گا تو پاکستان میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو بھارت کے خلاف پھیلائے گئے جھوٹ ہی کو سچ مانیں گے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ اپنے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی پالیسیاں اختیار کرنے کی بجائے دونوں ملک پورے خطے میں انتہاپسندی اور تشدد کا راستہ روکنے کے لیے تعاون کریں اور الزام تراشی سے مسائل حل کرنے کی کوشش سے باز رہیں۔
گزشتہ روز ہی ایک غیرمعروف گروہ ’کشمیر ریزسٹنس‘ نے مبینہ طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ گروپ کے بیان کہا گیا تھا کہ خطے میں 85 ہزار سے زائد ’آؤٹ سائیڈر‘ (باہر کے لوگوں ) کو آباد کیا گیا ہے، جس سے ’ڈیموگرافک تبدیلی‘ رونما ہو رہی ہے۔ اس بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہریوں کے خلاف تشدد اسی سرکاری پالیسی کا رد عمل ہے۔ واضح رہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے غیر کشمیری بھارتی شہریوں کو آسانی سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمان آبادی والے علاقوں میں آباد کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ اس گروپ نے مقبوضہ کشمیر کی حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اس مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پہلگام میں شہریوں پر حملہ اور انسانوں کو ہلاک کرنا ناجائز اور قابل مذمت ہے لیکن اس ایک واقعہ کو کشمیری عوام کے اصل حقوق چھیننے کے عذر کے طور پر استعمال کرنا بھی ناجائز اور قابل مذمت فعل ہو گا۔
مقبوضہ کشمیر عالمی طور سے تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارتی حکومت یک طرفہ اقدامات اور بیان بازی سے اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ اگر لمحہ بھر کے لیے اقوام متحدہ کی 1948 میں منظور کی گئی قراردادوں کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بھی کشمیری عوام کی اس خواہش سے کیسے انکار کیا جائے گا کہ اپنی سرزمین پر ان کا حق ہے اور نئی دہلی میں قائم کسی حکومت کو یک طرفہ فیصلوں کے ذریعے کشمیر پر کشمیریوں کے حق ملکیت سے انکار کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔
بھارتی حکومت نے سکیورٹی کے نام پر بعض ایسے اعلانات کیے ہیں جن کا تشدد، دہشت گردی یا سرحدوں کی حفاظت سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا یا ویزے منسوخ کرنے سے کیسے بھارت محفوظ ہو جائے گا؟ بھارت اور پاکستان کو محفوظ کرنے کے لیے باہمی روابط کم کرنے کی بجائے، انہیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ آج بھارتی سکیورٹی کمیٹی نے چند اعلان کیے ہیں۔ جمعرات کو وزیراعظم شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کر لیا ہے۔ اس اجلاس میں بھارت کے خلاف چند اعلانات کر دیے جائیں گے۔ کیا بیان بازی کی ایسی سرکس سے برصغیر میں امن بحال ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے لیڈروں کو فوری سیاسی ضرورتوں سے بالا ہو کر خطے میں آباد پونے دو ارب لوگوں کے مستقبل اور بہبود کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
- جنگ بندی کے بعد ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت - 11/05/2025
- جنگ شدید ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے! - 10/05/2025
- جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا! - 09/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).