بھٹو کو مار دیا گیا۔۔۔ علاوہ ازیں ہر چیز زندہ ہے


یر سال چار اپریل کی صبح مختلف اخبارات اور برقی رسالوں میں ‘بھٹو زندہ ہے’ کے عنوان سے کئی اداریے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ زیرک دوستوں کی کاوشوں کو سراہنے کا دل چایتا ہے کہ انہی کی بدولت ہمیں تاریخ کے ایک ایسے کردار کو پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے جس کا نام سنتے ہی، اس کے سولی چڑھ جانے کے تقریبا چار دہائیوں بعد بھی، ذہن میں بہت سے ایسے سوالات جنم لیتے ہیں جن کے جوابات اخبارات میں یا تو کسی نظریاتی اساس کے تحفظ میں نہیں دیے جاتے اور یا پھر وہ جوابات، چار دہائیوں قبل کی روایت برقرار رکھتے ہؤے، ایک نئے طریقے سے سینسر ہو جاتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ پاکستانی کی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس نے بہت سے سوچنے والے ذہنوں پر گہرا اثر چھوڑا۔ لیکن اس کے اٹھتیسویں یوم رحلت پر ہمیں تاریخ کے ایک طالبعلم کو ضرور اس بات سے روشناس کرانا ہوگا کہ بھٹو ایک سوچ کا نام ہے۔ ہمارے یہ مضمون سمجھاتے ہی وہ طالبعلم ضرور اس سوچ کو اپنے سیاق و سباق میں تلاش کرنے کی کوشش کرے گا اور کہیں نا ملنے پر سوال بھی کرے گا کہ کیا وہ سوچ درست تھی؟ اگر اس کا جواب مثبت میں ملے تو ذہن سوال کرے گا، کیا اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جن مصلحتوں کا سہارا لیا گیا وہ ضروری تھیں؟ کیا چار اپریل کی رات ذوالفقار علی کے پپروں تلے تختہ کھینچنے میں انہی بیساکھیوں کا بھی کردار تھا؟

بین السطور مطالعہ کا تجربہ نا ہونے کے باوجود اس طالبعلم کا ذہن کڑیاں ملانے کی کوشش کرے گا کہ چار اپریل کے سورج ابھرنے کے ساتھ بھٹو کو موت اور جس سوچ کو ظاہری فتح ملی تھی، کیا آج اس سوچ کا کوئی منظر عیاں ہے؟ یاد رہے، اس سوال کے جواب کی کھوج میں اس کی نظر ٹیلی ویژن پر کسی جید عالم پر بھی ضرور پڑے گی جو پاکستانی عورت کو تقدیس مشرق کا درس دیتے ہوۓ مجازی خدا کے ہر حکم کے آگے بلا چوں چراں سر تسلیم خم کرنے پر خداوند کے بہشت اولیٰ میں اعلیٰ مقامات کے وعدے سنا ریا ھوگا۔

اسکی سوالات سے بھری آنکھیں ہمیں مخاطب کریں گی کہ مملکت خداداد کے جن اداروں نے اٹھتیس سال پہلے ظلم کی اس داستان کو لکھنے کا فیصلہ کیا تھا، کیا ان سے سوال کرنے کے لیے کوئی زی شعور قلم اٹھا سکتا تھا؟ اگر اسے جواب منفی میں ملا تو ممکن ہے کچھ بھی اور سوچنے سے پہلے اسے خبرنامے کے ذریعے پتہ چلے کہ جامعہ کراچی سے منسلک ڈاکٹر ریاض صاحب کو پریس کلب میں بات کرنے سے پہلے دھر لیا گیا ہے۔ سوچ اور سوالات کے جوابات تک پہنچنے کے سفر کو جاری رکھتے ہوۓ وہ یہ بھی پوچھے گا کہ بھٹو کے سولی پہ چڑھ جانے کے بعد جیالوں کے قید خانوں کی آغوش اور کوڑوں کے ساۓ میں گزرتے لمحات کو محفوظ کرنے کی ذمہ داری کس کی تھی؟

عین ممکن ہے کہ ٹھیک اسی وقت ریڈیو پر یہ خبر بھی سنے کہ لٹ گیا تیرا وطن لیکن پانامہ کیس کا فیصلہ محفوظ ہے۔ انصاف کو خریدنے کے لیے قیمت کا موازنہ جب اٹھتیس سال پھلے کی عدالت سے کرے گا تو نتیجتا فرق میں صرف چند کوڑیاں اس کا دماغ ضرور چکرا دیں گی۔ کچھ سوچ بچار کے بعد جب کڑیاں ملنا شروع ہوں اور غم و غصہ میں وہ قلم اٹھائے، ہم پر اور ہم سے پہلے لکھنے والے ساتھیوں پر سب و شتم کے بعد کچھ تحریر کر کے اطمینان کا سانس لے کر سو جائے تو اس کی آنکھ یقینا ایک کال کوٹھڑی میں کھلے گی، عجیب طریقوں سے ستم برداشت کرنے کے بعد جب اسے واپس گھر پہنچایا جائے گا تو اپنے آپ کو اہانت مذہب کا ملزم پا کر اس بات کا ضرور قائل ہو چکا ہوگا کہ بھٹو نے جو حق اپنے ورثاء کو دیا تھا، وہ ادا ہو چکا۔

 بھٹو کو مار دیا گیا۔۔۔ علاوہ ازیں ہر چیز زندہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).