جعلی اصلی ”پیر“ اور وزیر اطلاعات کا انڈوں کا صدقہ


سرگودھا میں ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے، الیکشن کمیشن میں بیسویں گریڈ کے آفیسر، ”پیر“ کے ہاتھوں بیس مریدوں کے قتل نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میڈیا پورا زور لگا رہا ہے کہ ثابت کرے کہ پیر صاحب کوئی جاہل، گنوار اور ”جعلی“ تھے۔ لیکن اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ بیسویں گریڈ تک کوئی پڑھا لکھا ہی پہنچتا ہے۔ اور اس کے اصلی ہونے کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اس بھیانک واردات کے بعد بھی اس کے عقیدت مندوں میں اتنا بھی حوصلہ نہیں پڑ رہا کہ کوئی مقدمے کا مدعی تک بن جائے۔ ہر کوئی پیر صاحب کے جلال سے خوفزدہ ہے۔ ادھر پیر صاحب بھی ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیںکہ انہیں ذر ا موقعہ دیا جائے تو وہ ان بیس افراد کو دوبارہ زندہ بھی کر سکتے ہیں۔ ہاں البتہ پولیس سے رہائی خود نہیں کرا سکتے۔ صدقے جائیں اس پیر کے عقائد پر کہ جو قدرت سے لڑ کر مردوں کوزندہ کرنے کا تو دعویدار ہے لیکن چند پولیس والوں کو قابو کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن پھر بھی اس کی باتیں سنی جا رہی ہیں۔ یہ تو پکڑا گیا ایسی ہی بہت سی اونچی اونچی ہستیاں اور پہنچی ہوئی سرکاریں آپ کو جگہ جگہ مل جائیں گی۔ جن کے عقیدت مندوں کی بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ کوئی مگر مچھوں کی پوجا کرا رہا ہے، کوئی گندے تالابوں میں ڈبکیاں لگوا رہا ہے،کوئی برہنہ کرکے زدوکوب کر رہا ہے، درخت سے الٹے لٹکا کر علاج کر رہا ہے، زنا، شراب نوشی، بھنگ، چرس اور جرائم کی داستانیں ہیں کہ جو پیری مریدی کی آڑ میں برپا کی جا رہی ہیں۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ کوئی پیر صاحب جو مرضی کرتے رہیں، ہزاروں مرید بھی بنا لیں، ہر قسم کی حرکتیں بھی دھڑلے سے کریں لیکن کوئی نہیں پوچھتا۔ جیسے ہی وہ کوئی بڑی ”واردات ڈالتے “ ہیں اور معاملہ میڈیا تک پہنچتا ہے تو وہ ”جعلی اور نام نہاد“ قرار پاتے ہیں۔ معاملے کا رخ ہی بدل دیا جاتا ہے گویا ایک شخص کو موردالزام ٹھہرا کر باقی سب کو بچا لیا جاتا ہے کہ جو اس سارے گھناؤنے دھندے میں ملوث ہیں۔ ملک بھر کے ہر طبقہ فکر اور مسالک کے علمائے کرام پیری مریدی اور مزارات پر ہونے والے غیر شرعی امور اور خرافات کے حوالے سے واضح موقف دے چکے ہیں۔ یہ مسئلہ کوئی مسلکی اختلاف کا نہیں بلکہ اس دھندے کی آڑ میں اسلام کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ بعض گمراہ اور بدفطرت افراد اپنے مزموم مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ حکومت، علمائے کرام، سکالرز اورمعاشرے کے ہر طبقے کو چاہیے کہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا اکرے تاکہ سادہ لوح عوام کی زندگیاں بچائی جا سکیں، عورتوں کی عزتوں کا تحفظ ہو اور نذرانوں کے عوض عیاشی کرتے ان گدی نشینوں اورنام نہاد پیروں مریدیوں کی روک تھام ہو سکے۔ یہ اولیائے کرام کے وارث نہیں بلکہ ان کے نام کو استعمال کرکے عوام کو لوٹنے والے ڈاکو ہیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

المیہ تو یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں توہم پرستی، بدعقیدگی اور جاہلانہ رسومات صرف سادہ لوح دیہاتی اور ان پڑھ لوگوں تک محدود نہیں ہے۔ ہماری سیاست،حکومتی عہدے ہر جگہ جھوٹی پیری مریدی کا راج ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنی قسمت جگانے کے لئے ایک بابا جی کی چھڑیاں کھا چکے ہیں جبکہ انہی بابا جی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی چھڑی مارکر خوشخبری سنائی تھی۔ تازہ ترین ویڈیو ہماری سرگرم وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب صاحبہ کی سامنے آئی ہے جس میں وہ ہاتھوں میں چھ عدد انڈے پکڑ کر بیٹھی ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھی ایک بزرگ خاتون ایک ایک کرکے انڈہ مریم اورنگزیب کے سر سے وارتی ہیں اور بعدازاں یہ سارے انڈے صدقہ کرنے کے لئے کسی کو پکڑا دئیے جاتے ہیں۔ جی ہاں یہ المیہ ہے ہمارے معاشرے کا کہ جہاں ملک کی وزیر اطلاعات اپنی بلاؤں کو ٹالنے کے لئے انڈوں کی مشکل کشائی کا سہارا لیتی ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان کی مشکلات چھ انڈے صدقہ کرنے سے حل ہو جائیں گی اور وہ اس سارے عمل کی باقاعدہ ویڈیو بھی بنوا رہی ہیں۔ ایسے معاشرے میں اگر کوئی جعلی اصلی پیر بیس مریدوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے تو ہمیں کچھ زیادہ حیران نہیں ہونا چاہیے۔ جس معاشرے میں ملک کی حکمران پارٹی کے سربراہ جناب مخدوم امین فہیم صاحب خاندانی جائیداد بچانے کے لئے اپنی بہنوں کا نکاح قرآن پاک سے کر دیں۔ جہاں تبدیلی اور ملک کی تقدیر بدلنے کی دعویدار پارٹیوں کے اہم عہدوںپرلوگوں کے نذرانوں پر پلنے والے گدی نشین قابض ہوں وہاں بیس افراد کے گلے کاٹنے جیسی حرکت کوئی بڑی بات نہیں لگتی۔ جس ملک میں کبھی اس بارے پوچھا ہی نہ گیا ہو کہ بڑے بڑے جاگیرداروں کے پاس جائیدادیں کن خدمات کے صلے میں آئیں اور انہوں نے لوگوں کی اندھی عقیدت کو انگریزوں کی حمایت کے لئے استعمال کیا تھا۔ لیکن کوئی سوال نہیں کرتا۔

اس معاشرے کا مستقبل کیا ہوگا کہ جہاں لوگوں کی دین سے محبت کو پیری مریدی کے نام پر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ آئے روز کسی نہ کسی جعلی پیر یا نام نہاد عامل کے ہاتھوں کسی خاتون کی عزت تار تار ہوتی ہے، کسی بچے کو جادو کے لئے قتل کیا جاتا ہے، لوگ اپنے مال و متاع سے محروم ہوتے ہیں، کسی مرید کی جان لے لی جاتی ہے یا شراب، بھنگ، چرس اور منشیات کے باعث قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں لیکن اس قتل و غارت اور مکروہ دھندے کے بارے کہیں بات نہیں ہوتی۔ بس ایک چھوٹی سی خبر بنتی ہے۔ پیر کو ”جعلی“ قرار دے دیا جاتا ہے اور سب پھر سے کسی نئے واقعے کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کوئی مسلکی اختلاف، اولیائے کرام کی تعلیم و تربیت اور تصوف کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹتا ہوا ناسور ہے کہ جو ہمارے اپنوں کی جان لے رہا ہے۔ اس بارے میں معاشرے کے ہر فرد کو سوچنا ہوگا اس سے پہلے کہ ہم بھی کسی نام نہاد جعلی پیر یا عامل کے ہاتھوں کسی اپنے کی لاش اٹھائے ماتم کر رہے ہوں! کوئی وزیر اطلاعات صاحبہ کو بتلائے کہ مشکلات اور بلائیں انڈے وارنے سے نہیں ختم ہوتیں، عوام کی خدمت کرنے سے حل ہوتی ہیں۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).