مذہبی انتہا پسندی اور لبرل ازم کی شعوری مہم جوئی


(ایچ بی بلوچ)۔

ہماری کسی چیز یا عمل کے بارے میں چاہت اسی چیز یا عمل کی عدم دستیابی کی علامت ہے۔ جیسے انسان امن چاہتا ہے۔ انسان خوشی چاہتا ہے۔ انسان اپنی زندگی کو سہولتوں سے سہل بنانا چاہتا ہے۔ ایسے ضروری لوازمات جن کی انسان فرداً فرداً دستیابی کی توقع رکھتا ہے۔

ان حالات میں اگر انسان کی عمومی نفسیات پہ اس طرح تجزیہ کیا جاتا ہے جیسا تجزیہ نگار سمجھتا ہے یا سوچتا ہے نہ کہ جس طرح ہوتا ہے یا ہونے والا ہوتا ہے تو اس خود ساختہ مہم جوئی کے بہت مستقل مگر شعوری حوالے سے غیر سود مند نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ ہمارا زاویہ نظر ایک خاکے کی تشکیل ہوتا ہے جو ہر صورت ترقی پذیر ہونا ضروری ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر لبرل ازم ،دیسی لبرل ازم، لنڈے کے لبرل ،سیکولرازم کی تنقیدی اور نا قابل فہم اصطلاحیں گردش کر رہی ہیں جن میں نہ عوامی مسائل کا اعادہ ہوتا ہے نہ ہی انہیں عوامی تائید حاصل ہے اور نہ یہ اصطلاحات عوامی نقطہ نظر سے کوئی واسطہ رکھتی ہیں، نہ ہی اس عمل کو پورے قومی میڈیا کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ مجموعی طور پر میڈیا عوامی مورال اور مائنڈ سیٹ کو بخوبی پہچانتا ہے اور اپنے مخصوص معیار کو اپنے دائرہ کار کا حصہ بھی سمجھتا ہے لیکن ہمیں سوشل میڈیا کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہونا چاہئے اور عوامی طور بے ربط شعوری مہم جوئی کا بھی۔

یہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ ریاستی طور پر قومی یا مذہبی روایتی حریف و فریق بنائے جاتے رہے ہیں جن میں حتمی طور پہ عوامی تائید اور تردید کی تعریف یقینی طور پر بیان نہیں کی جاسکتی مگر عوام کی حب الوطنی میں جذباتی طور پر ہیجان پیدا کرنے کے لیے کچھ نرم گرم موسموں کا انتخاب کیا جاتا رہا ہے۔

غیر مغالطہ اور مغالطہ آمیز کیفیت کی شعوری کوششوں اور مزاحمتوں کی ہر دور میں ایک بڑی اہمیت رہی ہے جیسے برٹش سامراجیت کی ریاستی مخالفت اور مفاہمت کی بنیادیں معاشی اور زمینی حقائق پہ مبنی تھیں مگر اس ناپسندیدگی کا اظہار ثقافتی طور پر لباس کی صورت میں آج تک وجہ نفرت بنا ہوا ہے کیونکہ شعوری طور پر سامراج کی معاشی تعریف و تشریح مغل درباری ،مذہبی اکابرین اور مدح سرائی ادیبوں کے بس کا روگ نہیں تھی۔ عوامی ترقی پسند لوگ ادیب اور شاعر یا تو قتل کردیے گئے یا صوفیانہ طرز شاعری میں کھو گئے۔

بہرحال جس طرح ٹیپو سلطان نے انگریز سامراجیت کے خلاف مزاحمت کی اس کی ذات سے بغض کا اظہار انگریزوں نے کتوں کا نام’ٹیپو‘ رکھنے سے کیا۔ انگریز سرکار کے نئے اور مقامی نمک خواروں اور بعد دیگر عوام نے بغیر تحقیق کے اس کی تقلید کی اور آج تک وہ لوگ بھی اس شوشے کے نام کو چھوٹے نسل کے کتوں کے طور پر جانتے ہیں جو ٹیپو سلطان کو بطور شخصیت پہچانتے بھی نہیں۔

جس طرح جنرل ضیاالحق کی اسلامی آمریت میں اجتماعی معاشی نظریہ کے حامیوں کو کافر کہا گیا اور آج تک کافر اور ملحد سمجھا جاتا ہے۔آج کل انتہا پسندی نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ لوگوں کو اشتعال دلایا جاتا ہے۔ رجعت پرستی ہمیشہ معصوم اور سادہ لوح لوگوں کا انتخاب کرتی ہے اور اس فرشتگی کو مغالطہ آمیز مذہبی مفہوم کے ذریعے انسانیت کے منہ کا کالک بنا دیا جاتا ہے۔

لبرل ازم ایسا کوئی نظریہ ذیست نہیں کہ اس کو انتہا پسندی کے مقابل بطور معاشی یا سماجی قانونی حیثیت میں نافذ کیا جا سکے۔ یہ معاشرے کے مخصوص معاشی مراحل، نوعیت اور سماجی تشکیل میں معاشرے کا فطری اخلاقی عکس ہوتا ہے۔ لبرل ازم بھی قدیم اشتراکی نظام کی طرح مخصوص فطری سماجی کیفیتوں سے ماخوذ ہے مگراشتراکیت کا نعم البدل ہرگز نہیں۔ یہ ایک ایسی سماجی جڑت کی مانگ کرتا ہے جس میں معاشرے کی تہذیبی اور اخلاقی گھٹن کی شفا ہو سکے۔ یہ مختلف معاشرتی مراحل میں مختلف مذاہب اس کے ساتھ مختلف اقوام کے لوگوں کے باہم فطری رہن سہن کا حسن سلوک ہے جس کا فطری عکس ہمیں لوک ادب، آرٹ موسیقی اور عوامی تاریخ میں نظر آتا ہے۔ادب کا فرقہ واریت ،نسلی قومی و مذہبی امتیاز کے خلاف احتجاج ہمیں اپنی پوری تاریخ میں پہلے کہیں نظر نہیں آتا جو سماجی طور لبرل ازم کی فطری موجودگی کی تردید کر رہا ہے۔

دور حاضر کے علمی مباحثوں میں لبرل ازم کی تعریف ہی غیر لبرل ہے۔ یہ صرف مذہبی اعتدال پسندی کا مطالبہ کر رہی ہے جب کہ فطری طور پر ہمارے گزارے ہوئے اعتدال پسند ادوار میں بغیر قومی ،مذہبی اور نسلی امتیاز کے صرف مذہبی اعتدال پسندی کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتاکیونکہ ہمیشہ شعوری مزاحمتیں غیر شعوری اور فطری حرکت و عمل سے زیادہ جاہل ثابت ہوئی ہیں۔

ہندوستان میں ہندو، سکھ، عیسائی، بدھا اور مسلمان اپنے مختلف قبائل، برادریوں، جاتیوں کے ساتھ صدیوں سے اکٹھے رہتے آئے تھے۔ اس میں اگر بھائی چارے کو ہم لبرل ازم کہہ سکیں تو یہ بغیر کسی پرچار کے ایک فطری لبرل ازم تھا۔ اس کے بعد عہد اکبری میں مصلحت پسندانہ درباری اعتدال پسندی کے رجحان بھی مختلف مذہبی اکابرین کی تقابل پسندانہ ذہنیت کی وجہ سے ایک سیاسی ضرورت تھی۔

نیم سرمایہ داری ،نیم جاگیر دارانہ سماج میں معاشی حوالے سے ذاتی مفادات پہ استوار سماج کی تشکیل نے ذاتی حاصلات اور ذاتی تحفظ کی جنگ نے عزیز کو اپنے عزیز کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ مجموعی طور پر رشتوں کی نوعیت منڈی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ رشتوں میں سماجی، اخلاقی اقدار گراوٹ کا سبب بنے ہیں۔ یہ سماجی ٹوٹ پھوٹ معاشی تبدیلی کے متقاضی ہیں تو دراصل انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا نسبتاً آسان بھی ہے۔ آج ذاتی مفادات کے آگے قوم، رنگ، نسل، مذہب سیاسی پیداواری ذریعے بن چکے ہیں۔ انسان کی مجموعی نفسیات میں ذاتی مسائل کی بہتات نے عدم برداشت کو جنم دیا ہے اور عدم برداشت ہمیشہ یا تو انقلابات یا شدت پسندی اور انتہا پسند ی کی داعی ثابت ہوئی ہے اور اسی وجہ سے لبرل ازم اور مذہبی انتہا پسندی کی غیر فطری شعوری کوششوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔مگر یہ ایک مخصوص مکتبہ فکر کی بحث ہے۔ چاہے لبرل ازم ،سیکولرازم، سوشلزم اور کمیونزم کی سائنسی پر دلائل بحثیں سماجی مناسب مواقع پہ ہوں یا سماجی طور نا مناسب موقع پر،مذہب قطعی طور پر ہارتا نہیں اگر واقعی اپنے نظریاتی جوہر میں اقتدار کا خواہاں ہے۔

کیونکہ مذہب آفاقی حکمرانی کا نام ہے۔

لوگوں کے دلوں پر
لوگوں کی عقل سے لے کر عقیدہ تک
لوگوں کی تقدیر سے لے کر معاشرتی تکمیل کی تدبیر تک
کیونکہ مذہب انسان کے لیے نہیں انسان مذاہب کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).