رین واٹر ہارویسٹنگ: ایک ممکنہ بحران کا حل
انڈیا ہمارے حصے کے دریاؤں پر بند باندھ کر ہمارے دریاؤں کا پانی تو روک سکتا ہے، اس کا رخ موڑ سکتا ہے لیکن کیا وہ ہمارے خطے میں برسنے والی بارشوں کو بھی روک سکتا ہے؟
کیا وہ ہمارے خطے میں آنے والے سیلابوں کو بھی روک سکتا ہے؟
کیا وہ ہمارے خطے پر چلنے والی مون سون کی ہواؤں کو بھی کنٹرول کر سکتا ہے؟
کیا وہ ہمارے ان بڑے زیرزمین آبی زخائر کو بھی ختم کر سکتا ہے، جو ہزاروں سال سے ان دریاؤں کے بہنے کی وجہ سے ہماری زمینوں میں جمع ہوتے چلے گئے ہیں؟
ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں، ایسی طاقت انڈیا تو کجا، دنیا کے طاقتور سے طاقتور ترین ملک، سپر پاور ملک کے پاس بھی نہیں ہے۔
ویسے انڈیا ہمارا دریائی پانی روک تو نہیں سکتا، ایسا کرنا صرف دیوانے کا خواب ہی ہے۔ لیکن بالفرض اگر وہ روک بھی دے، تب بھی ہم اپنے اس آنے والے واٹر کرائسس سے کیسے بچ سکتے ہیں، آئیے ہم ذرا اس پر تفضیل سے بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ہم سب کو پتہ کہ ہمارے مشترکہ خطے، یعنی انڈو پاک میں مخصوص سیزن میں مون سون کے زمانے میں خوب موسلادھار بارشیں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال لاکھوں کیوسک بارش کا پانی آتا ہے، لیکن مناسب ذخیرہ اندوزی کے فقدان کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ دیگر ممالک میں بارش کے پانی کو محفوظ کر کے زراعت اور گھریلو ضروریات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، مگر پاکستان میں ایسا کوئی موثر نظام موجود نہیں۔ جی ہاں، پاکستان میں بارش کا بہت زیادہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ سالانہ تقریباً 30 سے 35 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہوتا ہے جو کہ موجودہ بڑے آبی ذخائر تربیلا اور منگلا ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی گنجائش کے برابر ہے۔ اس ضائع ہونے والے پانی کو آبی ذخائر یا ”ریچارج ویل“ بنا کر ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔
ریچارج کنواں ایک ایسا زیر زمین عمارتی ڈھانچہ یا پانی جمع کرنے کا ریزروائر ہے، جو بارش کے پانی یا دوسرے جمع شدہ پانی کو زمین میں گھسنے اور جمع رکھنے کی سہولت دینے کے لیے زمینی پانی کے ذخائر کو بھرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایکویفرز کو مصنوعی طور پر ری چارج کرنے کا ایک طریقہ ہے، جو نیشنل واٹر مشن کے مطابق، زمینی پانی کی کمی سے نمٹنے اور پانی کی دستیابی کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔
واٹر مینجمنٹ ماہرین کے مطابق یہ ضائع شدہ پانی موجودہ بڑے آبی ذخائر تربیلا اور منگلا ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی گنجائش کے برابر ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں سالانہ 300 سے 1000 ملی میٹر بارشیں ہوتی ہیں اور گزشتہ چند سال کے دوران موسمیاتی تبدیلی کے باعث ان کی مقدار اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پاکستان میں سال 2023 ء میں مجموعی طور پر معمول سے 16 فیصد زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں جبکہ اگست 2024 ء کے مہینے میں معمول سے 142 فیصد زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمینی پانی کو ریچارج کرنے کے لئے بارشی پانی کا استعمال خاطر خواہ مثبت تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔
ان سالانہ بارشوں میں سے کراچی میں سالانہ 6.87 انچ، لاہور میں 23.9 انچ، فیصل آباد میں 13.6 انچ، راولپنڈی میں 37 انچ، گوجرانوالہ میں 22.8 انچ، پشاور میں 15.1 انچ، ملتان میں 4.1 انچ، حیدر آباد میں 5.36 انچ، اسلام آباد میں 31.13 انچ اور کوئٹہ میں ہر سال اوسط 9.6 انچ بارش ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے تمام دیگر دیہی اور نیم شہری علاقوں میں بھی خوب بارشیں ہوتی ہیں، جن کا ڈیٹا فی الوقت دستیاب نہیں، لیکن اس موجودہ ڈیٹا کو دیکھتے ہوئے شہری علاقوں میں گھروں اور عمارتوں میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے خصوصی ٹینک اور واٹر ری چارج سسٹم بنائے جا سکتے۔ اس کے علاوہ، مزید چھوٹے چھوٹے ڈیمز اور آبی ریزروائر جیسے یہ واٹر ریچارجز بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بارش کا پانی ضائع ہونے کے بجائے ذخیرہ کیا جا سکے۔ آبی ذخائر کی تعمیر کے ذریعے بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لیے بڑے اور چھوٹے آبی ذخائر کی تعمیر ہنگامی بنیادوں پر کی جا سکتی ہے۔
بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی یعنی rainwater۔ harvesting، یعنی بارش کے پانی کو بہنے کی اجازت دینے کے بجائے بعد میں استعمال کے لیے جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس میں چھتوں جیسی سطحوں سے بارش کے پانی کو پکڑنا اور اسے ذخیرہ کرنے والے ٹینکوں یا حوضوں میں لے جانا، یا یہاں تک کہ پانی کو دوبارہ چارج کرنے کے لیے اسے زمین میں گھسنے کی اجازت دینا شامل ہے۔ یہ مشق بہت سے فوائد پیش کرتی ہے، بشمول پانی کا تحفظ، میونسپل پانی کی فراہمی پر انحصار کم کرنا، اور زمینی پانی کو ری چارج کرنا۔
بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا عمل rainwaterharvesting کہلاتا ہے۔ اس میں مختلف طریقوں سے بارش کا پانی جمع اور ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ سطحی بہاؤ کے ذریعے پانی جمع کرنا ہے، جس میں سڑکوں اور کھیتوں جیسی سطحوں سے پانی جمع کیا جاتا ہے اور پھر زیر زمین بور کر کے پانی کو اس میں ڈالا جاتا ہے۔ شہروں میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ چھت کے ذریعے بارش کے پانی کو زیر زمین پانی محفوظ کرنے والی ٹینک میں اتار کر محفوظ کیا جاتا ہے۔
اس کے فوائد میں زیر زمین پانی پر انحصار کم کرنا، سیلاب کی روک تھام، اور پانی کے ذخائر کو بڑھانا شامل ہے۔ یہ ایک ماحول دوست عمل ہے جس سے پانی کو سمندر برد کرنے کے بجائے مستقبل میں استعمال کے لئے محفوظ کیا جاتا ہے۔
شہر کراچی میں مون سون سیزن آ پہنچا ہے لیکن بدقسمتی سے شہر کی بیشتر گرین بیلٹز کو پیور اینٹ سے پکا کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بارش کا پانی زیر زمین جانے کے بجائے سڑکوں اور گٹروں سے ہوتا ہوا سمندر میں ضائع ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں شہر قائد میں زبردست مون سون بارشوں کے باوجود بھی زیر زمین پانی کی سطح میں کوئی خاطر خواہ اضافہ ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ جبکہ بارش اور سیلاب کے قیمتی پانی کو ٹیوب ویل بور Bore کے ذریعے زیر زمین ذخیرہ کرنے کا نظام بھی بنایا جا سکتا ہے جو ڈیمز کے مقابلے میں انتہائی سستا محفوظ اور سائنٹفک ہو گا۔ قدرت کے نظام سیپج کے ذریعے بارشوں، سیلاب دریاؤں، نہروں اور برساتی ندی نالوں کا پانی زمین کے قانون ثقل کے ذریعے سیپج ہو کر ذخیرہ ہونے کا عمل خود کار انداز میں بغیر لاگت کے جاری رہتا ہے جسے ٹیوب ویلوں کے ذریعے انسانی ضرورتوں اور کاشتکاری کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
پاکستان کی اندرونی زمین کی ساخت کے مطابق پچیس سے پچاس فٹ کی گہرائی پر ریت کی پہلی پرتیں پائی جاتی ہیں جہاں تک ٹیوب ویل بورز کو اتارنا ہو گا۔ بعض آبی ماہرین نے تخمینہ لگاتے ہوئے بتایا تھا کہ دس ارب روپے کی لاگت سے ٹیوب ویل بورز Bores کا نظام بنا کر ڈی جی خان ڈویژن میں بارش اور سیلاب کے پانی کو زیر زمین ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ پانی کا ذخیرہ مجوزہ کالا باغ ڈیم کے آبی ذخیرے جتنا بڑا ہو گا جس سے ڈسٹرکٹ راجن پور کی چھبیس لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو ٹیوب ویلوں کے ذریعے سیراب کیا جا سکے گا۔
پاکستان بھر کے نان سیم زدہ علاقوں میں جہاں پانی پچاس فٹ کی گہرائی سے زیادہ ہو ٹیوب ویل بور کے ذریعے ایسا نظام قائم کیا جا سکتا ہے جس کا پانی کا ذخیرہ مجوزہ کالا باغ ڈیم کے ذخیرہ پانی سے تین گنا بڑا ہو۔ جس سے پاکستان کی دو کروڑ اسی لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو زیر کاشت لایا جا سکے گا۔ ٹیوب ویل بور نظام کی خوبی میں یہ بھی ماہرین نے بتایا تھا کہ یہ زمین کے قانون کشش ثقل سے ہمہ وقت مفت فنکشنل رہے گا اور جہاں کہیں پانی کی مقررہ سطح بلند ہو جائے گی وہاں ٹیوب ویل بور کے نظام کو با آسانی معطل کیا جا سکے گا۔
ریچارج کنویں کے مزید فوائد یہ ہوسکتے ہیں۔
سیلاب کم کرنا: بارش کے پانی کو زیر زمین گھسنے کی اجازت دے کر، ریچارج کنویں، پانی کی سطح کے بہاؤ کو کم کر سکتے ہیں اور اس طرح سیلاب کو روکنے یا کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
پانی کو محفوظ کرنا: ایسے ریچارج کنویں زیر زمین پانی کو بھرتے ہیں، جیسا کہ کراچی کے ضلع ناظم آباد سمیت کئی کمیونٹیز کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
پانی کی کوالٹی کو بڑھانا: جیسا کہ پانی مٹی کے میں رستا ہے، اسے قدرتی طور پر فلٹر اور صاف کیا جا سکتا ہے، جس سے زمینی پانی کے معیار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ریچارج ایبل ذخائر زیادہ مٹی سے ہی بنے ہوتے ہیں۔
پانی کو پمپ کر کے جمع کرنے کا خرچ بچاتا ہے۔ زیرزمین پانی کی سطح میں اضافہ گہرے کنویں کے پمپ اور متعلقہ توانائی کے اخراجات کی ضرورت کو کم کر سکتا ہے۔
ویسے اس آبی جنگ میں، اگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفارتی اور قونصلر کی سطح کا تعلق بھی ٹوٹ جائے تو بھی اس سندھ طاس معاہدے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی طرح یہ معاہدہ ٹوٹ بھی جائے تو بھی ایسے بین الاقومی کنونشن، ضوابط اور اصول موجود ہیں جو دریائی ملکوں کے آبی مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
ایک انڈین پروفیسر امت تیواری لکھتے ہیں ’ایک دستاویز کے طور پر اس معاہدے میں کچھ کمیاں اور خامیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدہ اور خراب تعلقات ہیں۔ ‘ آبی وسائل کے سابق وزیر سیف الدین سوز کہتے ہیں سندھ کمیشن کے اجلاس بہت پیشہ ورانہ اور پر خلوص ماحول میں ہوتے ہیں۔
’اس میں شامل اہلکار آبی اور تکنیکی امور کے بہترین ماہر ہوتے ہیں۔ آپ دریاؤں کے پانی روک کر صرف سیلاب لا سکتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ انڈیا اور پاکستان کی قدرتی اور جغرافیائی مجبوری ہے۔
بہرحال اس سندھ طاس معاہدے کا جو بھی آگے مستقبل ہو، ہمیں اپنے مستقبل کے لیے ابھی سے کوشش کرنی چاہیے اور ایسے ہزاروں کی تعداد کی بنیاد پر زیر زمین آبی ذخائر اور ریچارج ایبل کنویں تعمیر کر لینا چاہئیں جہاں سارے سال کی ضرورت کے مطابق پانی کا ذخیرہ کر لینا چاہیے۔ اس سچویشن سے ہمیں فائدہ اٹھا لینا چاہیے، ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں، عقل مند قومیں اسی طرح اپنی آفات سے بچ جایا کرتی ہیں۔
ویسے یہ سوال بھی بڑا جائز یہاں اٹھ سکتا ہے، کہ یہ سب زیر زمین پانی کے ذخیرہ کرنے والے اسٹرکچرز، اتنی جلدی اور اتنے کم وقت میں کیسے بن سکتے ہیں۔
تو اس کا جواب کچھ تاریخ سے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ قدیم مصر میں، مصریوں نے بڑے شاندار اہرام بنائے ہیں، جن کی ہیبت، عظمت ساڑھے چار ہزار سال گزرنے کے بعد بھی آج تک لوگوں کے دلوں میں قائم ہیں۔ حالانکہ ان کی تعمیر کیسے کی گئی، اس کے متعلق ابھی بھی بہت ساری باتیں ہمیں معلوم نہیں، لیکن اتنا ضرور پتہ ہے کہ ان کو بنانے میں مصریوں کی عظیم فنی مہارت کام آئی ہے اور انہی کارکنوں کی محنت سے یہ عظیم الشان عمارات تعمیر ہوئیں تھیں۔
اصلی تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اہرام مصر میں غزہ کا عظیم ہرم، تقریباً 20,000 سے 25,000 ہنرمند کارکنوں کی محنت سے بنایا گیا تھا۔ اس کارکنوں کی فوج میں جو اہرام کی تعمیر کے لیے فراعنہ نے وہاں متعین کی تھی، میں اصلی معاون عملے کے ساتھ ساتھ مستقل اور عارضی کارکنوں کا مجموعہ بھی شامل ہے، اور اسے مکمل ہونے میں 20 سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ تاریخی ریکارڈ یہ بتاتے ہیں کہ ان میں اکثر کارکنوں کو فراعنہ نے وہاں لاکر مخصوص بستیوں میں بسایا تھا، ان کو مستقل تنخواہ دی جاتی تھی، اور کھانے پینے سمیت تمام سہولیات بادشاہوں کی طرف سے میسر تھیں۔
اگر قدیم مصر میں، دو ہزار سے 25000 کارکن 20 سال میں غزہ کے عظیم اہرام بناتے ہیں، تو آج 10 لاکھ ہنر مند کارکنوں کی مدد سے اہرام آف گیزا جیسا ڈھانچہ بنانے میں کتنا وقت درکار ہے؟ چلیں کچھ صرف حسابی عمل کرتے ہیں، اور اے آئی سے تھوڑا پوچھتے ہیں۔
تو اے آئی نے مجھے یہ جواب دیا کہ ویسے اگر نظریاتی طور پر سوچا جائے اور حسابی کیلکولیشن کی جائے، تو اس طرح کے اہرام جیسی عمارتی ڈھانچہ تیار ہونے میں آج کے دور میں 10 لاکھ کارکنوں کے ساتھ تقریباً 18 یا 19 دن لگیں گے، کامل اسکیلنگ فرض کرتے ہوئے۔ تاہم، حقیقی دنیا کی رکاوٹیں (لاجسٹکس، اسپیس، کوآرڈینیشن) اس وقت نمایاں طور پر بڑھیں گی، اور شاید دو چار دن مزید بھی لگ سکتے ہیں۔ بہر حال، صرف 10 لاکھ ہنر مند کارکنوں کی مدد سے پیرامڈ آف غزہ جیسا عمارتی ڈھانچہ بنانے میں تقریباً 18۔ 19 دن درکار ہوں گے۔ اب اسی ایک ڈھانچے کو بجائے اوپر اٹھانے کے، ہم کچھ زیرزمین اسٹرکچر کھدائی کے ذریعے بنائیں، تو اس وقت بھی لگ بھگ اتنا ہی وقفہ لگے گا۔ اور اگر آپ اپنی اسکلڈ فورس کی تعداد بڑھا دیں، تو یہ مدت اور بھی کم ہوجاتی ہے، صرف دس دنوں میں یہ تعمیراتی کام ہو سکتا ہے۔ تو اب اگر آپ سوچیں کہ غزہ جیسا ہرم، اتنے کم وقت میں جب بن سکتا ہے، تو اس کہیں آسان کام جو انسانی طاقت، مشینری کی طاقت اور مختلف ٹولز استعمال کر کے کتنی جلدی ہو سکتا ہے؟ جو کام آج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل قدیم مصری اپنی سادہ، بنیادی اور آج کے زمانے سے فرسودہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کرچکے ہیں، ہم جدید ترین ٹیکنالوجیکل دور اور ہیوی مشنری کا استعمال کرتے ہوئے ایسا کام کیوں نہیں کر سکتے ہیں آج؟
اگر ہمارے ملک میں سے تئیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف دس لاکھ کی لیبر، جو ضروری نہیں کہ مکمل اسکلڈ ہو، صرف بنیادی کھدائی کا کام جانتی ہو، اس کو لگا کر یہ ٹاسک یعنی ریچارج ایبل کنویں کی کھدائی کی جا سکتی ہے اور ایسے ذخائر جلد از جلد بنائے جا سکتے ہیں۔ اور انسانی عزم و حوصلہ ہو تو مشکل سے مشکل ٹاسک بھی باآسانی پورا ہو سکتا ہے۔ ہمارے یہاں چونکہ یہاں سب سے زیادہ منظم ادارہ، فوج ہی ہے، اس لیے فوج کی ہی زیر نگرانی یہ کام سہولت اور تیز تر مدت میں سے ہو سکتا ہے۔ خرچے پیسے بھی اتنے زیادہ نہیں لگ سکتے، اور ہمارے ملک میں ایسے کئی مخیر افراد موجود ہیں، جو رقومات کی انویسٹمنٹ آسانی سے کر سکتے ہیں۔ پانچ سے دس ارب روپے میں یہ کام مکمل ہو سکتا ہے۔
- مجھے انڈیا کو دیکھ کر افسوس ہوا - 12/05/2025
- رین واٹر ہارویسٹنگ: ایک ممکنہ بحران کا حل - 29/04/2025
- طاغوت یا ایک پہلی - 03/07/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).