گلاس اور محبوبہ کو تھامنا ایک آرٹ


گلاس نہ ہو تو انسان دودھ تو پی ہی لے گا مگر باقی کئی مشروب پینے میں بڑی دقت ہوگی۔ گلاس ہمارے برتنوں کی سربراہی کرتا ہے۔ اسے بچے ، بڑے ، عزیز، رشتے دار سب پسند کرتے ہیں۔ مہمان آتے ہی سب سے پہلے گلاس اور پانی کا شور مچتا ہے۔ جتنی اچھی نسل کا میزبان ہو ، اتنی اچھی نسل کے گلاس کچن کے قید خانوں سے برآمد کئے جاتے ہیں جنہیں مہمانوں کے لوٹتے ہی نہلا دھلا کر دوبارہ شیشے کے زندانوں میں بند کردیا جاتا ہے۔

گلاس اور محبوبہ کو تھامنا ایک آرٹ ہے۔ بچپن میں کئی گلاس توڑ کر اور جوانی میں کئی محبوباوں کو ناراض کرنے کے بعد ہم اس آرٹ کو سیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ اگر کسی شوہر کو آپ بیگم کیلئے پانی لاتا دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ یا تو بیگم نئی ہے یا پھر گلاس قیمتی ہے۔ ایک زمانہ تھا لوگ ایلومینیم ، چاندی ، تانبے اورسٹیل کے گلاسوں میں پانی پیتے تھے اب کانچ کے گلاسوں کا دور ہے۔ گلاس ٹوٹتے ہیں اور نئے آجاتے ہیں ، آج کے رشتوں کی طرح۔

پرانے زمانے کے گلاس قد میں کافی بڑے ہوتے تھے ، اب یہ بھی چینی اور فلپائنی سائز میں عام دستیاب ہیں۔ سگھڑ بیویاں آج بھی شوہر پرانا ہوجائے تو اس کے سامنے سٹیل کے ہی گلاس رکھتی ہیں تاکہ اپنے جہیز کے گلاسوں کا سیٹ اپنی بچیوں کے جہیز میں شامل کرسکیں۔

کچھ لوگوں کو پھول دار اور رنگ دار گلاسوں سے بڑی محبت ہوتی ہے اور وہ خود بھی گلاسوں کی میچنگ سے لباس پہنتے ہیں۔ ایسے لوگ مہمانوں کی بڑی عزت اور آو بھگت کرتے ہیں۔ جو کچھ کچن میں ہو سارا مہمان کو کھلادیتے ہیں اور خود مہمان کا دماغ چاٹ جاتے ہیں۔ ان کے ہاں گلاس میں پانی پیش کیا جاتا ہے یا پھر لسی۔ چائے ایسی بناتے ہیں کہ شیرے کا گمان ہوتا ہے۔ اگر ان سے چائے پھیکی بنانے کی فرمائش کی جائے تو یوں برا مناتے ہیں جیسے گالی دے دی ہو۔

جدید فیشن کے مربع، مثلث اور تکون شکلوں والے گلاس رکھنے والے صرف دعوت دے کر ہی مہمانوں کو گھر بلاتے ہیں۔ ان کے ہاں سنیک کھلانے اور ایسے ٹھنڈے سرور آور مشروب سے تواضع کرنے کا رواج ہوتا ہے جسے پی کر انسان ون آور میں اتنا مدہوش ہوجاتا ہے کہ 55 سالہ میزبان اسے 15 سال کی چنچل لگنے لگتی ہے اور اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ گلاس کا منہ کدھر ہے اور پیندا کدھر۔

جن کے ہاں بچے اور گلاس درجن بھر ہوں انہیں بڑی تکلیف رہتی ہے۔ شوہر چاہتا ہے نیا بچہ ہو ،بیوی چاہتی ہے نئے گلاس لائے کیونکہ درجن بھر بچے ہر مہینے درجنوں گلاس توڑ دیتے ہیں۔ بالآخر سٹین لیس سٹیل کے گلاس خرید کر بچت کا راستہ ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔ سٹین لیس سٹیل کے گلاس اور فوجی حکومتوں میں یہی خوبی مشترکہ ہے کہ دونوں کا برسوں تک کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا۔

کچھ گھرانوں میں اچھے گلاس ہمیشہ پڑوسیوں سے ادھار لئے جاتے ہیں۔ مہمان کے جانے اور بچوں کی چھینا جھپٹی کے بعد جو کھانا بچ جاتا ہے اس کے سود کے ساتھ یہ گلاس واپس کردیے جاتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ان میں سے کوئی گلاس ٹوٹ جائے تو گھر میں ایسا رونا دھونا مچتا ہے جیسے کوئی قریبی عزیز فوت ہوگیا ہو۔ کچھ گلاس جو خاندانِ کرسٹل سے تعلق رکھتے ہیں ، اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ اسے دکاندار کے خرچے پر موت کی نیند سلادیا جائے۔

یہ مضمون ہم اپنی ان دو عزیزاوں کی یاد میں لکھ رہے ہیں جن کے گھر ہم مہمان بن کر جاتے تھے تو دو الگ طرح کا برتاﺅ سامنے آتا تھا۔ ایک گلاس جمع کرنے کی شوقین تھیں۔ ان کے مہمان خانے کی چاروں طرف کی دیواریں گلاسوں سے ڈھکی تھیں۔ وہ ہر مہمان کے سامنے تمام گلاسوں کا تعارف ایسے کرواتی تھیں جیسے لوگ اپنے بچوں کا کرواتے ہیں۔ اس تعارف کا دورانیہ اور گلاسوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی تھی۔ ایک بار ہم نے تنگ آکر ان سے کہہ دیا صرف ان گلاسوں کا تعارف کروائیں جو نئے خریدے ہیں۔ یہ گویا ہم نے ان کے گلاسوں کی گردن پر پیر رکھ دیا تھا۔ ہماری امی جان سے دل کھول اور گلاس بھر بھر کے شکایتیں کیں۔

دوسری محترمہ کا یہ وتیرہ تھا کہ جیسے ہی ہم امی جان اور ان کے بال بچوں کے ہمراہ ان کے گھر جاتے ، وہ ہمیں ایک کونے میں لے جاکر کہتیں ’بیٹا دائیں ہاتھ کے پڑوسیوں کے پاس سے چار گلاس ، چار چائے کے کپ اور چھ پلیٹیں لادو۔‘ اور ساتھ ساتھ تاکید کرتیں ’اپنی امی کو نہ بتانا۔‘ ہم حیران ہوتے کہ یہ فریضہ ان کے اپنے بچے کیوں انجام نہیں دیتے؟ ایک بار یہ راز کھل ہی گیا۔ ان کے بیٹے نے اپنی امی کی طرح تاکید کرتے ہوئے کانا پھوسی کے لہجے میں کہا ’اپنی اور میری امی کو نہ بتائیے گا ، امی کو پڑوسیوں سے مانگنے کی اتنی عادت ہے کہ ہمیں محلے کے بچوں نے ’منگ خورہ‘ کہنا شروع کردیا تھا ، تب سے ہم نے مانگنے سے انکار کردیا ہے‘۔ یہ سن کر ہمیں بھی کچھ نامعلوم سی ندامت محسوس ہوئی ، علاج یہ ڈھونڈا کہ ان ہی عزیزہ کے سامنے پڑوسیوں سے مانگے چار گلاس جان بوجھ کر توڑ دیے۔ اس کے بعد سے ہم جب بھی ان کے گھر گئے یہ خدمت ہمارے چھوٹے بھائی سے لینے لگیں۔ خدا گلاس اور ایسی عزیزاﺅں کو سدا بہار رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).