جنرل کیانی کی کہانی


وطن عزیز پاکستان کا سچا واقعہ۔ ایک بذلہ سنج نوجوان پچھلے سال حکومت آ رہی ہے، حکومت جا رہی ہے جیسے تجزیے سُن کر بھِنا گیا اور اس نے ہمارے معروف تجزیہ نگاروں کی بھد اڑانے کے لیے ایک طنزیہ مضمون لکھا جِس میں وُہ سازش سے سازش نکالتے ہوئے ایک ایسے عالِم لایقینی میں چلا گیا کہ میرے جیسے سنکی بھی مسکرا اُٹھے۔

مضمون کے آخر میں مصنف نے احتیاطً یہ بھی لِکھ دیا کہ بھائی ایسے سنجیدگی سے پڑھنے کی کوشش مت کریں۔

گذشتہ ہفتے ایک بزرگ مدیر نے اِنٹرنیٹ سے اٹھا کر اپنے کالم کے طور پر چھاپ دیا۔ کچھ نوجوانوں نے سرقہ، سرقہ کا الزام لگایا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ بزرگ مدیر نِصف صدی سے زیادہ عرصے سے صحافت کی خدمت کر رہے ہیں اِتنا حق تو بنتا ہی ہے کہ کسی کے بلاگ پر ہاتھ صاف کر لیں۔ بڑے بڑے صحافیوں سے کبھی کبھی ایسی چھوٹی حرکت ہو جاتی ہے لیکن صحافت کا کارواں نہیں رکتا۔

لیکن اِس کے بعد پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے اِس مضمون نما لطیفے کو صحیفے کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ الزام لگا دیا کہ دیکھا ہمیں الیکشن سعودی عرب، امریکہ اور جنرل کیانی نے مِل کر ہروایا۔

امریکہ اور سعودی عرب والوں میں شاید ہمارے جیسی حِس مزاح نہیں ہے اِس لیے انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن ایک سابق جنرل صاحب جو بقول خود ان کے پنجاب میں الیکشن کروانے کے ذمے دار تھے اپنے دبنگ لہجے کے ساتھ اِس بحث میں کودے اور کہا کہ میں نے خود الیکشن کروائے ہیں اور کوئی دھاندلی نہیں ہوئی کیونکہ مجھے دھاندلی کروانے کا حکم نہیں آیا۔

یہیں پہ رک جاتے تو بھی ٹھیک تھا لیکن ایسے ہی رک جانے والے جنرل نہیں بنا کرتے، فرمایا کہ پی ٹی آئی نے یہ گھناؤنا الزام لگا کر سات لاکھ حاضر سروس فوجیوں اور تیس لاکھ ریٹائرڈ فوجیوں کی حمایت کھو دی ہے۔ پی ٹی آئی پر اچھا بُرا وقت آتا رہتا ہے لیکن ایک ہی دِن میں 37 لاکھ فوجیوں کی حمایت کھو کر یہ پارٹی کیسے سنبھل پائے گی۔

ہ تو جنرل صاحب سے یہ بھی نہیں پوچھ سکتی کہ جب آپ پنجاب میں دھاندلی نہیں کروا رہے تھے تو کیا آپ نے 37 لاکھ حاضر اور ریٹائرڈ فوجیوں سے پوچھا تھا کہ آپ کِس کے حمایتی ہیں؟

ہر قوم قوم بننے کے لیے کِسی ہستی کو، کِسی دستاویز کو، کِسی تاریخی استعارے کو مانتی ہے۔ بعض قومیں لڑ جھگڑ کر ایک آئین بنا لیتی ہیں۔ کچھ مقدس صحیفوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتی ہیں، جیسے اسرائیلی تورات کے صحیفوں میں جینا چاہتے ہیں اور انڈیا مہا بھارت کے دور میں زندہ رہنا چاہتا ہے۔ پاکستانی قوم اِسی طرح کے لطیفوں کے اندر زندہ رہنا چاہتی ہے۔ اصلی لطیفہ سنانے والا کہہ کہہ کر تھک گیا لیکن ہمارے بہترین دماغ مصر ہیں کہ نہیں اِس میں کچھ حقیقت تو ہو گی۔

گلیوں بازاروں میں فوج کے بارے میں لطیفہ چلتا تھا۔

’جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا‘۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن مارا گیا تو پتہ چلا کہ یہ لطیفہ نہیں ہماری قومی دفاعی پالیسی ہے۔ حکمرانوں پر کرپشن کا کیس چلتا ہے تو وہ کہتے ہیں تمہیں کیا یہ سب تو ہمارے باپ کا پیسہ ہے۔ دیکھا جائے تو یہی باپ کا پیسے والا فلسفہ ہی ہماری معاشی پالیسی ہے۔

اندرونی سکیورٹی کا لطیفہ یہ ہے کہ بندہ اٹھا کر غائب کر لو پھر اِتنی چھترول کرو کہ دوست دشمن سب سہم جائیں۔ اِن سہمے ہوؤں میں سے کوئی اگر یہ پوچھ لے کہ بھائی اس نے آخر کیا کیا ہے تو کہو کہ کچھ تو کیا ہو گا ورنہ کیا ہم پاگل ہیں کہ بندہ اٹھاتے پھریں؟

اب جبکہ ایک جنرل صاحب ایک واشگاف الفاظ میں ہمیں بتا چکے ہیں کہ جنرل کیانی نے انھیں کبھی دھاندلی کا حکم نہیں دیا تو کیا میڈیا کو نہیں چاہیے کہ دوسروں کے لطیفے چرا کر انھیں صحیفوں کی طرح پیش کرنے کی بجائے تھوڑی صحافت کر لے۔

دنیا کے سب سے مستند سمجھے جانے والے صحافی سیمور ہرش نے لِکھا تھا کہ ایبٹ آباد پر امریکی حملے کا جنرل کیانی کو پتہ تھا۔ کِسی نے ان کے کِسی ساتھی سے پوچھا کہ ہمیں اِتنے عرصے سے پھر اور کہانیاں کیوں سنائی جا رہی ہیں۔

جنرل کیانی سے کوئی یہی پوچھ لے کہ آپ جب فوجی سپاہی کا سال منا کر ہمارے جوانوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے تو آپ کے بھائی فوجی افسروں اور شہیدوں کو گھر دینے کے نام پر اربوں لے اڑے۔ آج کل بھائی صاحب کِسی حال میں ہیں؟

اگر ایسے سوال بدتمیزی کے زمرے میں آتے ہوں تو یہی پوچھ لیا جائے کہ سنا ہے کہ جب آپ سپہ سالار تھے تو ٹینشن بہت لیتے تھے، بولتے کم اور سگریٹ زیادہ پیتے تھے اب کچھ سکون آیا، سگریٹ نوشی کم ہوئی؟

بشکریہ بی بی سی


پانامہ کا فیصلہ اور مکافات عمل قریب آ پہنچے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).