قبائل کو زبان دو


(عرفان اللہ وزیر)۔

فاٹا پاکستان کا وہ حصہ ہے جہاں پر پاکستان کا آئین اور قانون نہیں۔ انگریز حکمرانوں نے اس وقت فاٹا کے عوام کی مشاورت سے ایسا قانون بنایا جو دنیا کے کسی ملک اور علاقے میں نہیں ہے کیونکہ ہم نے کبھی بھی ایف سی آر کا نام دوسرے ملکوں کے لوگوں سے نہیں سنا ۔اس کو کالاقانون بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ انسانی حقوق سے متصادم ہے ۔ اس میں کسی اپیل، وکیل اور دلیل کی کوئی گنجائش نہیں ہے مگر فاٹا کے عوام قیام پاکستان سے لے کر اس کو فالو کرکر رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں دہشت گردی کی لہر اٹھی، امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، وہاں سے سارے دہشت گرد وںنے راہ فرار اختیار کی اور فاٹا میں پناہ لے لی اور یہاں سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دھماکے اور عوام پر ظلم کی انتہا کر دی جس کے بعد فاٹا میں پاک فوج نے انہیں ختم کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں آپریشن شروع کیے۔ پاک فوج اور ساتھ ہی فاٹا کے عوام کی قربانیوں سے یہاں پر امن قائم ہوا اور فاٹا میں ایف سی آر معطل ہوا۔

سول انتظامیہ بھی فوج کے زیراثر رہی، جرگہ سسٹم ختم ہوگیا کیونکہ ایف سی آر میں جرگہ کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ سب کچھ فوج کے ہاتھوں میں آگیا کیونکہ حالات کا تقاضا تھا کہ فاٹا حالت جنگ میں تھا۔ مختصراً جوہوا اچھا ہوا یابرا مگر پاک فوج اور فاٹا کے عوام نے قیام امن کے لئے بے مثال قربانیاں دیں۔ فاٹا کے جن علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک فوج کلیئر کرتی رہی وہاں پر آباد کاری اور دیگر ترقیاتی کام شروع کرنے چاہیے تھے۔ عین اس وقت جب آدھے سے زیادہ قبائل کیمپوں میں رہائش پذیر تھے اور سر چھپانے اور پیٹ بھر نے کے لیے ترس رہے تھے ،فاٹا کے چند پارلیمنٹرینز اور این جی اوز نے ڈرامہ شروع کیا کہ فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرو۔ آخر وزیراعظم نے اس کے لئے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی کہ فاٹا کے عوام سے رائے لی جائے۔

تین آپشنز دیئے گئے۔ 1۔ فاٹا کونسل، 2۔ الگ صوبہ، 3۔ کے پی کے میں شامل ہونا ۔

کمیٹی نے فاٹا کے دورے شروع کئے ۔ان دوروں میں کسی نے ان کو یہ نہیں کہا کہ ہم کے پی کے میں شامل ہونا چاہتے ہیں البتہ ایف سی آر میں ترامیم ،فاٹا کونسل اور الگ صوبے مطالبے ضرور ہوئے ۔ایک اور بات اس میں بھی عام لوگوں سے رائے نہیں لی گئی ۔چند سو کے قریب لوگوں سے رائے لی گئی ۔کمیٹی نے دورے مکمل کرکے رپورٹ مرتب کی، اس کو کابینہ میں پیش کیا ،کابینہ نے فیصلہ دیا کہ فاٹا کے عوام کے پی کے میں شامل ہونا چاہتے ہیں لہٰذا 5 سالوں میں اس کو قومی دھارے میں لائیں گے پھر بھی عوام سے رائے لیں گے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اس پر جے یو آئی اور محمود خان کا سخت موقف سامنے آیا ۔اس فیصلے کو یکسر مسترد کیا ،جرگے بلائے ۔جرگے نے بھی حکومتی فیصلے کو شدید الفاظ میں مسترد کیا ۔حکومت نے طاقت کا سرچشمہ گورنر کو بنایا۔ اس پر وزیراعلیٰ نے بھی تحفظات کا اظہارکیا ۔

صوبائی حکومت نے عدالت جانے کا اعلان کیا۔ پرویز خٹک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں سرے سے انضمام کا لفظ نہیں ہے۔ اس سے بھی معاملہ تھوڑا خراب ہوا۔ دوستو اگر قبائل نے یہ مان بھی لیا کہ ہم کے پی کے میں شامل ہونا چاہتے ہیں مگر کوئی مجھے یہ بتائے کہ قیام پاکستان کو 68 سال ہوگئے، کے پی کے، کے جنوبی اضلاع کو کیا ملا۔ تعلیم ،صحت ،پانی، بجلی ؟۔کیا وہاں کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات دستیاب ہیں۔ وہاں کے عوام اس دور جدید میں بھی جوہڑوں کا پانی پی رہے ہیں۔ یہاں پر بجلی برائے نام ہے۔ سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔یہاں کے سکول اور ہسپتال ویران ہیں۔ اس کے علاوہ چترال اور کوہستان کے عوام کا کیا حال ہے اگر اس کے ساتھ فاٹا کو بھی شامل کیاگیا تو پھر کیا حال ہو گا اللہ بہتر جانتا ہے۔ دوستو ہمیں الگ صوبہ چاہئے ۔صرف طورخم گیٹ سے سالانہ 42ارب روپے کا ریونیو جمع ہوتا ہے۔ پورا فاٹا قدرتی معدنیات سے مالامال ہے ۔جو فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرنا چاہتے ہیں ریفرنڈم کرا کے دیکھ لیں ،دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

رپورٹ میں 5 سال کا عرصہ دیا گیا۔ اگلے سال انتخابات ہیں پھر نئی حکومت بنے گی، وہ پھر نیا فیصلہ کرے گی۔ یوں سمجھو کہ فاٹا کو تجربہ گاہ بنانا جا رہا ہے۔ یہاں کے عوام محب وطن ہیں۔ ملک کے دفاع کی خاطر تن ،من ،دھن کی قربانی سے گریز نہیں کرتے ،پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اس کے باوجود ان کویہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔ وہ لوگ جو خوشیاں منا رہے ہیں ان کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہو گا۔ خدارا فاٹا کے عوام کو اختیار اور زبان دو کہ وہ اپنے فیصلے خود کریں۔ ہم بھی پاکستانی ہیں۔ ہمارے آباواجداد نے قیام پاکستان میں قربانیاں دیں۔ ہمیں زبان دو ،ہم سے ہمارا حق مت چھینو۔ ہمیں بھی ایسے فیصلے کرنے دو کہ ہماری آنے والی نسل کم از کم ہمیں بددعا تو نہ دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).