ثنا یوسف کا انکار بمقابلہ مردانگی
ارینج میرج یعنی والدین کی مرضی سے شادی کو ہمارے معاشرے میں خاندانی عزت و وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بہترین لڑکی کے انتخاب کے لئے پہلے رشتے والیوں سے رابطہ کیا جاتا تھا اب رشتہ ایپس موجود ہیں جہاں عام طور پر بیس سے چھبیس سال تک کی لڑکیوں جبکہ چوبیس سے پینتیس سال تک کے لڑکوں کے رشتے موجود ہوتے ہیں۔ جس کے تجزیے کے مطابق سولہ سالہ گریجویشن مکمل کرنے والی لڑکی جس کی عمر کم و بیش بائیس یا تئیس سال ہوتی ہے اگر اگلے دو سے تین سال میں اسے شادی کے لئے پسند نہ کیا گیا تو وہ اوور ایج سمجھی جانے لگتی ہے۔ اس ذہنی دباؤ کہ ساتھ لڑکی اور اس کے اہل خانہ ہر آنے والے رشتے کا استقبال کرتے ہیں۔ کھانے پینے کے لوازمات سے میز سجائی جاتی ہے اور لڑکی مہمانوں کے سامنے آ کر بیٹھ جاتی ہے اس سے سوال جواب ہوتے ہیں اور مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد لڑکی والے بیتابی سے لڑکے والوں کے جواب کا انتظار کرنے لگتے ہیں جو کئی بار ”نہ“ کی صورت میں نکلتا ہے۔ یعنی لڑکی کو مسترد کر دیا جاتا ہے اور یہ انکار معاشرے میں قبول عام ہے۔ لڑکی کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے تو پہنچے اس کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے تو ہو معاشرہ مسترد کیے جانے کے اس عمل کو قابل اعتراض نہیں سمجھتا۔ کتنی بار لڑکے لڑکی کو مسترد کرتے ہوئے اپنے والدین کی کی ہوئی منگنیاں توڑ دیتے ہیں، کتنے نکاح توڑ دیتے ہیں اور رشتوں کی تلاش میں مسترد کیے جانے کی شرمندگی شاید ہی کسی مشرقی لڑکی نے نہ اٹھائی ہو۔ لیکن کبھی کسی لڑکی نے مسترد کیے جانے پر قتل تو کیا منہ پر گالی تک نہیں دی شاید ان میں دل نہیں ہوتا یا غیرت۔
معصوم صورت سترہ سالہ چترالی میڈیا انفلوئنسر یا عام زبان میں ٹک ٹاکر کو اسلام آباد جیسے ماڈرن شہر میں ان کے اپنے ہی گھر میں گھس کر ایک لڑکا گولیاں مار کر قتل کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر طوفان بپا ہو جاتا ہے وکٹم بلیمنگ کرنے والوں کی زبانیں تیز تیز چل رہی ہیں کہیں بچی کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں کوئی کہتا ہے یہ غیرت کے نام پر قتل ہوئی۔ جس ملک کی ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد آبادی ٹک ٹاک استعمال کرتی ہے اسی کے نمائندے کہہ رہے ہیں لڑکیاں ٹک ٹاک پر آئیں گی تو یہ تو ہو گا۔
اسی بے سروپا شور میں اسلام آباد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق اس نے اقرار جرم بھی کر لیا اور وجہ قتل بنا ثنا یوسف کی طرف سے مسترد کیے جانا۔ جس سوشل میڈیا سٹار کے ٹک ٹاک پر آٹھ لاکھ اور انسٹا گرام پر پانچ لاکھ سے زائد فالوورز ہوں اس سے سوشل میڈیا پر رابطہ اور ایڈریس معلوم ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ابتدائی معلومات کے مطابق لڑکا، ثنا سے دوستی کا خواہشمند تھا وہ ایک بار پہلے ثنا سے ملاقات کے لئے اسلام آباد آیا لیکن اس نے ملنے سے انکار کیا۔ مردانگی کو ٹھیس پہنچی اب دوسری بار ملاقات کے لئے آیا تو تیاری سے آیا تھا کہ پستول بھی پاس تھی۔ دوسری بار ثنا کی طرف سے ملاقات سے انکار کو مردانہ غیرت جھیل نہیں پائی اور لڑکی کو قتل کر کے فرار ہو گیا۔
قتل کا مقدمہ مقتولہ کی والدہ فرزانہ یوسف کی مدعیت میں سمبل پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 302 (ارادی قتل) کے تحت درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق مقتولہ کی والدہ نے موقف اپنایا کہ بروز پیر 2 جون کو شام 5 بجے ایک نامعلوم مسلح شخص گھر میں داخل ہوا اور میری بیٹی کو جان سے مارنے کی نیت سے اس پر براہ راست فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے نتیجے میں میری بیٹی ثنا یوسف کے سینے میں 2 گولیاں لگیں جس سے وہ شدید زخمی ہوئیں اور ہسپتال میں دم توڑ گئیں۔
بظاہر پولیس نے یہ کیس حل کر کے کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن بطور معاشرہ ہم بری طرح ناکام ہوئے ہیں پدرسری معاشرے کی فصل جب پکتی ہے تو بچیوں کے سر ایسے ہی کاٹے جاتے ہیں کبھی سندھ میں کسی استانی کو شادی سے انکار پر قتل کر دیا جاتا ہے کبھی پنجاب میں بیوی کو قتل کر کے خودکشی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں خواتین کے چہرے پر تیزاب پھینکنے کا جرم کوئی نیا نہیں اور اب اسلام آباد میں دوستی سے انکار پر ایک لڑکی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔
آج بھی عوام کی بڑی تعداد کو یقین ہے کہ ملزم کی جان بخشی ہو جائے گی یا صلح ہو جائے گی۔ کیونکہ وہ ایک ٹک ٹاکر لڑکی کو کہیں نہ کہیں اپنے قتل کا خود ذمہ دار سمجھتے ہیں لیکن اپنے لڑکوں کو تہذیب، برداشت اور لڑکیوں کو برابر کا انسان سمجھنے کا سبق دینے کے قائل نہیں جو ان کی طرح جنس مخالف کو انکار کا حق رکھتی ہوں۔
- ثنا یوسف کا انکار بمقابلہ مردانگی - 04/06/2025
- پلوامہ سے پہلگام تک - 03/05/2025
- انسانی دودھ کا بنک اور پاکستان - 07/07/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).