کیا محنت کی عادت ختم ہو چکی ہے؟


میرے میاں صاحب کل بتانے لگے کہ جب سن پچانوے میں وہ امریکہ کی پرڈیو یونیورسٹی میں پڑھائی کی غرض سے گئے تو وہاں پر ان کے ساتھ بہت سے ہندوستانی طلبہ بھی پڑھتے تھے، جن سے ان پاکستانی طلبہ کی مسابقت بھی تھی اور دوستی بھی۔ آپس میں بہت بحث مباحثے ہوتے۔ کہتے ہیں اس وقت پاکستان کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت چکا تھا، ہاکی کا عالمی فاتح تھا، سنوکر کا عالمی اعزاز بھی پاکستان کے پاس تھا اور سکواش میں بھی ورلڈ چیمپین تھا۔ کہتے ہیں کہ ہم ہندوستانیوں سے ہمیشہ یہی کہتے کہ ایک ارب آبادی کے باوجود تمہاری ٹیم میں سچن کے علاوہ کوئی اچھا کھلاڑی نہیں ہے۔ غزل گائیکی اور قوالی میں بھی تم ہمارے ملک کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کہتے ہیں کہ ہر شعبے کی بات ہم لوگ فخر سے اور سر اٹھا کر کرتے تھے اور ہمارے ہندوستانی ہم عصروں کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا تھا۔ مگر کل افسوس سے کہنے لگے کہ اب اگر کسی ہندوستانی سے سامنا ہو تو ہم یہ بات نہ کر سکیں۔ سٹہ بازی کے الزامات نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔

میں نے کچھ روز قبل جیو ٹی وی پر سن بانوے کی کرکٹ ٹیم کا انٹرویو سنا۔ مجھے تو وہ اس وجہ سے بھی متاثر کن لگا کہ کپتان کی عزت ہر کھلاڑی کی باتوں سے جھلکتی تھی اور سیاسی زندگی میں عمران خان کے بارے میں میری جو بھی رائے ہو، میں اس بات سے بہت متاثر ہوئی کہ کرکٹ میں اور کپتانی میں ان کا عبور اور اس کی ستائش ایک ایک کھلاڑی کے چہرے اور باتوں سے عیاں تھی۔ ہر بات سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس وقت ورلڈ کپ جتانے والی چیز سخت محنت اور جذبہ تھی کیونکہ محنت کاجوش اور جیت کا جذبہ پوری ٹیم کی باتوں اور چہرے کے تاثرات سے اب تک جھلکتا تھا۔ اچھا اور ایک اور بات جو میں نے محسوس کی کہ محنت اور جیت کی مثبت باتوں نے مجھے ہلکا پھلکا کر دیا اور جب وہ انٹرویو ختم ہوا تو میاں صاحب کی آنکھیں بھی جگمگا رہی تھیں۔ وہ جو آج کل ہر روز قتل و غارت گری کے قصے سن کر کاندھوں اور دماغ پر ایک بوجھ پڑ جاتا ہے اس سے وقتی طور پر جیسے نجات سی مل گئی۔

کھیل کا میدان تھا یا کہ تخلیقی صلاحیتیں، ہر شعبے میں ہم بطور قوم ایک کمال تک پہنچے تو تھے۔

وائیٹل سائینز کے گانے اب تک ہماری گاڑی میں بجتے ہیں۔ کیونکہ شعیب منصور کے بارے میں پڑھا تھا کہ اس وقت تک ریہرسل کرواتے تھے، جب تک کہ مطمئن نہ ہو جاتے۔ خداداد تخلیقی صلاحتیں اپنی جگہ تھیں مگر محنت وہ چیز تھی جس نے ان گانوں کو لازوال بنا دیا۔ اور پھر ذرا ساحرہ کاظمی کے ڈرامے یاد کریں تو اس وقت کے جو بھی انٹرویو سنے سب اداکار یہی بتاتے تھے کہ وہ کردار کی تشکیل سے لے کر مکالموں کی ادائیگی تک شدید محنت کرواتی تھیں۔ اب ٹی وی ڈرامے تو بہت بنتے ہیں مگر زیادہ تر اداکار ایک سپاٹ چہرے کے ساتھ طوطے کی طرح مکالمات ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب ڈرامے بھی بے تحاشہ بنتے ہیں اور ڈاکٹر انجینئر بھی اسی، نوے کی دھائی کی نسبت بہت ہی زیادہ ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شعبے میں وہ عہد رفتہ والی قابلیت نظر نہیں آتی۔

پرائیویٹ یونیورسٹیاں کم تھیں تو علم تھا کہ سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ صرف محنت سے ملے گا۔ نظام تعلیم کی خرابیاں اپنی جگہ مگر محنت اپنی جگہ بہت اہم تھی۔ اب انجینئرنگ یامیڈیسن کی ڈگری لینا تو بہت آسان ہے، مگر ڈگریاں کسی بھی طرح کی قابلیت کا ثبوت نہیں۔ میاں صاحب جو شعبہ انجینیرنگ کی تعلیم سے وابستہ ہیں، ہر روز کڑھتے ہیں کہ کوئی بھی طالب علم ایک ذھین سوال تک نہیں کرتا۔

میلکم گلیڈویل کی کتاب آوٹ لائرز میں ایسے لوگوں پر تحقیق کی گئی ہے جنہوں نے کسی بھی شعبے میں بہت نمایاں مقام حاصل کیا جیسا کہ بل گیٹس۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ کسی بھی فن میں اوج کمال حاصل کرنے لے لئے کم از کم دس ہزار گھنٹے اس فن کی ریاضت درکار ہے۔ بیٹلز اتنا مشہور اس لئے ہوا کیونکہ انہوں نے اپنا پہلا گانا دنیا کے سامنے لانے سے پہلے اس قدر محنت ہی کی تھی۔

اب بچوں نے ٹیبلٹ اور سمارٹ فون پکڑے ہوتے ہیں اور تمام تر توانائیاں اس پر صرف کر دیتے ہیں۔ ان میں کسی بھی قسم کی فکری صلاحتیں نمو پا ہی نہیں رہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب ہمارے ارد گرد کوئی انسان بھی ایک ظاہری سطح سے آگے سوچنے، بات کو سمجھنے اور محنت کرنے یا زور لگانے پر تیار نہیں۔

محنت اور جذبہ قائم رکھنے اور بڑھائے رکھنے میں ایمانداری کا بھی بہت دخل ہے۔ آپ خود سے ایماندار ہوں، اپنے شعبے سے ایماندار ہوں تو ہی شاید آپ محنت کر سکتے ہیں۔

سوچتی یہ ہوں کہ کیا ہم جہانگیر خان اور وسیم اکرم جیسے کھلاڑی، فیض جیسا شاعر، فریدہ خانم جیسی گلوکارہ یا عبدل السلام جیسا سائینسدان دوبارہ کبھی پیدا کر بھی پائیں گے یا نہیں، یا بس اب دہشت گردی اور کرپشن ہی ہماری واحد شناخت ہے؟

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim