کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ریاض احمد کی گرفتاری اور آزادی اظہار


پچھلے دنوں کراچی یونیورسٹی کے ایک استاد ڈاکٹر ریاض احمد کی گرفتاری پر سوشل میڈیا میں بڑا شور اٹھا۔ یوں تو گرفتاریاں آج کل خاصی عام ہو چکی ہیں مگر ڈاکٹر ریاض کی گرفتاری نے مختلق گروپوں میں بٹے روشن خیال طبقے کو اکھٹا کر دیا۔ پہلی دفعہ اساتذہ بھی متحرک ہوئے اور عدالت کے باہر نعرے لگاتے نظر آئے شاید اس لئے کہ جو تھوڑی بہت خوش فہمی رہ گئی تھی لوگوں کے دلوں میں کہ کم از کم اساتذہ ریاستی جبر سے محفوظ ہیں وہ بھی ختم ہوئی، مبارک ہو۔

 ڈاکٹر ریاض پر جس طرح کے الزام لگے ان سے دل رنجیدہ ہوا۔ ہمارے یہاں تخیل کا کتنا فقدان ہے۔ ان کے پاس سے پستول کی برآمدگی کا الزام خاص طور سے مضحکہ خیز لگا۔ سنتے ہی پہلا خیال یہی آیا کے پستول یقیناً پانی والی ہوگی کیونکہ ایک تو کراچی میں پانی کی خاصی قلت ہے اور دوسرا ڈاکٹر ریاض کو جدوجہد میں تخیل کا شوق۔ ورنہ جو انہیں جانتے ہیں وہ گواہی دے سکتے ہیں کے ان کے پاس اگر کوئی ہتھیار مل سکتا ہے تو وہ صرف ٹراٹسکی کے مضامین کی فوٹو کاپیاں ہی ہوسکتی ہیں۔

لیکن پھر الزامات سنگین ہونے لگے اور تشویش گہری۔ ان سے اختلاف رائے رکھنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر ریاض انسانی حقوق کے علم بردار ہیں اور ان کا قصور صرف یہ کہ انہوں نے اپنے ساتھی پروفیسر اور اور بائیں بازو سے تعلق رکنے والے ایک ضعیف دانشور ڈاکٹر ظفر عارف کی غیر قانونی گرفتاری اور انہیں طبّی امداد سے محروم رکھے جانے پر ایک پریس کانفرنس کرنے کی جسارت کی۔

پروفیسر ظفر عارف جیسے دانشور کی گرفتاری اور غیر انسانی سلوک اپنی ذات میں خود کتنی شرمناک بات ہے یہ کہتے ہوئے بھی اب تو شرمندگی ہوتی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ شرمندگی کی بات ڈاکٹر ریاض کی گرفتاری اور ان پر لگائے جانے والے الزامات پر ہوتی ہے۔ ایسا شخص جس نے ہمیشہ ایم کیو ایم کی سیاست پر انگلی اٹھائی، یونیورسٹی میں گن کلچر کو ختم کرنے کی تلقین کی اور اپنے دشمنوں کے اظہار رائے کے حق کے لئے آواز اٹھائی اور ہر محکوم کے ساتھ کھڑے ہوئے چاہے وہ مزدور ہو یا لاپتہ بلوچ، آج خود سنگین الزامات کی زد میں ہے۔ مگر شرمندگی تو جیسے اب ہمارا مقدار بن چکی ہے۔

بائیں بازو کی سیاست، ڈاکٹر ظفر عارف اور ایم کیو ایم:

 بائیں بازو کے دانشوروں کو شوق ہوتا ہے سیاسی تجربے کرنے کا۔ اسی شوق میں وہ کبھی بھٹو جیسے جاگیردار کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو سچ مانتے ہوئے اس کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں تو کبھی ایم کیو ایم جیسی فاشسٹ تنظیم کے خلاف ہونے والے انتقامی سیاسی آپریشن پر الطاف بھائی سے جا ملتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تجربہ گزستہ برس ڈاکٹر ظفر عارف نے بھی کیا جو کراچی یونیورسٹی کے سابق پرفیسر ہیں اور بائیں بازوں کے دانشور مانے جاتے ہیں۔

کیونکہ وہ گالی سے زیادہ دلائل پر یقین رکھتے ہیں اس لئے ان کے مخالفین بھی ان سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کب چت کر دیں۔

 اور یوں الطاف حسین کے ہاتھوں دہائیوں سے عاجز اداروں کے لئے پروفیسر ظفر عارف کی ایم کیو ایم میں شمولیت ایک نیا درد سر بن گئی۔

وہ اپنی پریس کانفرنسوں میں مطالبے کم اور تدریس زیادہ کیا کرتے تھے۔ ایک پریس کانفرنس میں تو سوفوکلیس کے ڈرامے Antigone کا بھی حوالہ دے ڈالا۔ اس دن اندازہ تو ہو گیا تھا کے وہ جلد ہی ایک خاص مہمان بننے والے ہیں، لیکن وہ ریاست کی نئی دکھتی رگ بھی بن جائیں گے یہ نہیں سوچا تھا۔ لیکن ظاہر ہے یونانی ڈرامے کے اخلاقی اور قانونی تضاد کا حوالہ اور موازانہ موجودہ پاکستانی سیاسی حالات سے یوں کھلم کھلا کرنا بہرحال کسی جرم سے کم تو نہیں۔ اور ایسی ہمّت تو صرف ظفر عارف ہی کر سکتے ہیں۔

 میں نہیں جانتی کے پروفیسر ظفر عارف کس سیاسی بصیرت میں ایم کیو ایم کے ساتھ جڑے لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ وہ اگر جیل نہ جاتے تو ایم کیو ایم کے بچے کھچے پارٹی ورکرز کو فلسفہ اور تاریخ پڑھنے کی طرف مائل ضرور کر جاتے۔ اب شاید وہ یہی کام ساتھی قیدیوں کے ساتھ کر رہے ہوں۔ (مضمون کے لکھنے تک پروفیسر ظفر عارف ابھی ضمانت پر رہا نہیں ہوئے تھے)

ظفر عارف کے معاملے میں ایک خاص قسم کا سخت ریاستی رویہ شاید ان کا اپنا سیاسی پس منظر بھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسئلہ ایم کیو ایم سے وابستگی سے زیادہ ان کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ ماضی ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کیسے انہوں نے جنرل ضیا کو ناکوں چنے چبوائے۔ اور اس کی پالیسیز کے خلاف کراچی یونیورسٹی میں اپنی سیٹ سے ہی استعفی نہیں دیا بلکہ وہاں آمریت کے خلاف مہم بھی سر گرم رکھی۔ ہر دور میں فوجی مداخلتوں کے خلاف ان کی مزاحمتی سیاست بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اور ریاست کب بھولتی ہے ایسی بغاوتیں۔ اور ویسے بھی یہاں آج کل چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی متنازع تاریخ کے پیش نظر بائیں بازو کے بیشتر دانشوروں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی گرفتاری پر خاموشی اختیار کر لی۔۔ اور ان سے بے پناہ عقیدت رکھنے والے ان کے شاگردوں اور ساتھی اساتذہ نے بھی ان کی بازیابی کے لئے آواز نہیں اٹھائی ماسوائے چند طلبہ تحریک سے وابستہ نوجوانوں کے۔ اور اگر ڈاکٹر ریاض نے بھی اس خاموشی کے تالاب میں پتھر پھینکنے کی جسارت نہ کی ہوتی تو شاید آج بھی ہم ڈاکٹر ظفر عارف پر بات نہ کر رہے ہوتے۔

 لیکن آج جب کہ ان کے لئے آواز اٹھانے والی واحد آواز پر بھی سنگین الزامات لگا کر بند کروانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو اس نے ملک کے تمام روشن خیال لوگوں کو جھنخوڑ دیا ہے۔ سب کی سمجھ میں آ گیا ہے کہ اب بات کرنے کی جگہ بہت تنگ ہو چکی ہے۔ اب ڈاکٹر ظفر عارف یا ڈاکٹر ریاض کے لئے نہیں بلکہ اب اپنے لئے باہر نکلنا ہوگا۔

 ایم کیو ایم ایک مظلوم جماعت ہے یا نہیں اور ڈاکٹر ظفر عارف کا ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ صحیح ہے یا غلط اس سے قطع نظر، آزادی اظہار رائے کے حق کا دفاع سب کی ذمہ داری ہے۔

اور ڈاکٹر ریاض کی گرفتاری کے خلاف اٹھنے والے شور نے یہ بات ثابت کر دی ہے کے سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن اظہار رائے پر اب مزید ضربیں اور اس طرح کی ریاستی بے انصافیوں کو اب مزید ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔

ایم کیو ایم لندن کے حوالے سے ریاستی رد عمل دیکھتے ہوئے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اب ریسٹبلشمنٹ کی دکھتی رگ بن چکی ہے۔ کبھی دوستانہ ہوا کرتا تھا مگر آج ان کا ذکر کرنا بھی ایک جرم۔ کبھی اقبال کاظمی کو دھر لیا جاتا ہے تو کبھی ظفر عارف کو گرفتار اور اب ڈاکٹر ریاض۔

ایم کیو ایم کی کمر جتنی توڑی جا چکی ہے اسے تو اب کوئی ہڈی اسپیشلسٹ بھی نہیں جوڑ سکتا۔ بازار میں اتنے رنگوں کے مشروبات نہیں جتنے ایم کیو ایم کے دھڑے ہیں۔ تو پھر یہ بوکھلاہٹ کیسی؟ چند دوستوں کا یہ خیال ہے کے ایم کیو ایم ایک سیاسی حقیقت ہے اور الطاف بھائی آج بھی اس کا دل۔ میرا سوال یہ ہے کہ کون سی والی ایم کیو ایم؟ اور الطاف بھائی کی مقبولیت کا تو اب یہ حال ہے کہ بچے ان کا مذاق اڑاتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ رہی بات ان کی دہشت گردی کی جس کا حوالہ دے دے کر ان کے کارکنوں کو اٹھایا جاتا ہے تو بقول ایک دوست کے کہ، ان کے پاس تو اب بوری خریدنے کے بھی پیسے نہیں بچے تو وہ کراچی میں پھر سے دہشگردی کیا خاک کریں گے؟ یہ بات سچ ہے کہ کسی زمانے میں کراچی والوں کو بوریوں سے ڈر لگتا تھا مگر آج کل بکتر بند گاڑیوں سے لگتا ہے اور کبھی بھائی لوگوں کی دہشت گردی سے یہ شہر کانپ جایا کرتا تھا مگر آج یہی کام ریاستی ادارے سر انجام دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).