کیا راحیل شریف کو عسکری اتحاد کی قیادت کرنی چاہیے؟


سعودی عرب کا تجویز کردہ عسکری اتحاد کئی تجزیہ نگاروں، اور بالخصوص پاکستان اور مشرق وسطی کے شیعہ مسلمانوں کے نزدیک سعودی قیادت میں ایک نیا سنی اتحاد نظر آتا ہے جس کا بنیادی مقصد ایران کا خطہ میں شام، عراق اور یمن کے شیعہ مسلمانوں میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو کم کرنا ہے۔

کئی مہینوں کی خاموشی کے بعد حکومت پاکستان کی وزارت دفاع نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سعودی اور پاکستانی حکام نے پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو اس اتحاد کی قیادت سونپنے پر اتفاق کر لیا ہے۔

ابھی تک اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے کہ اس 39 ممالک کے اتحاد میں کون کون سے ملک اپنی فوجوں کے دستے بھیجیں گے اور جنرل راحیل شریف کا کردار کیا ہوگا۔

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ملک کی 20 فیصد آبادی کا حصہ شیعہ ہے اور فوج میں بھی ایک بڑی تعداد شیعہ فوجیوں کی ہے، کئی پاکستانیوں میں اس اتحاد کے بارے میں تحفظات ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اسی کی دہائی میں سعودی عرب اور ایران پر الزام تھا کہ ان دونوں نے پاکستان کی سرزمین پر پراکسی جنگ لڑی تھی۔ ان دونوں ممالک پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنے پسندیدہ جنگجوں گروہوں کو فنڈنگ فراہم کی تاکہ وہ ایک دوسرے کو قتل کر سکیں۔

30 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی پاکستان میں سنی دہشت گرد گروہ بڑی تعداد میں شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں اور حکومت اب تک ان سے نپٹنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔

اس اتحاد کے حصہ بننے پر ملک میں بڑے پیمانے پر بحث و مباحثہ ہوا ہے اور حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے بالخصوص اپنے اعتراضات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس اتحاد سے پاکستان میں شیعہ سنی اختلافت بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں پاکستانی مصر ہیں کہ پاکستان مشرق وسطی میں جاری مختلف بحران سے علیحدہ رہے۔ دوسری جانب ملک کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اس اتحاد کے سب سے بڑے حامی نظر آتے ہیں، جن پر سعودی حکام کے ماضی میں کئی احسانات ہیں۔ 1999 میں جنرل مشرف کے ہاتھوں تختہ الٹ جانے کے بعد نواز شریف نے ملک بدری کے کئی سال سعودی حکومت کی میزبانی میں گزارے تھے۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ پاک فوج بھی ماضی میں سعودی حکومت کے قریب رہی ہے جس میں انھوں نے سعودی افواج کو تربیت بھی دی اور جنگی ساز و سامان خریدنے میں مدد بھی کی۔ اس وقت مشرق وسطی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جو کہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ سعودیوں پر اس بات کا بھی شک ہے کہ وہ شام کے بحران میں کئی سنی جنگجوں گروہوں کو ملک کے شیعہ صدر بشار الاسد کے خلاف مدد فراہم کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ پڑوسی ملک بحرین میں بھی شیعہ اکثریت کے مظاہرے روکنے میں حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔

پاکستان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ان ممالک میں کسی بھی قسم کے دخل اندازی سے دور رہے۔

سعودی حکام نے اس سے پہلے بھی حکومت سے پاک فوج کی یمن میں جاری جنگ میں مدد مانگی تھی جو کہ پچھلے سال پارلیمان کے مشترکہ فیصلے کے تحت نہیں دی گئی۔ لیکن اس نئے عسکری اتحاد اور جنرل راحیل شریف کو قیادت ملنے کے بعد منظر عامہ کچھ بدلتا ہوا نظر آتا ہے۔ دوسری جانب ایران نے مشرق وسطیٰ میں عراق اور شام میں شیعہ حکومتوں کو فوجی امداد دے کر اپنی موجودگی کا احساس بڑھانے شروع کر دیا ہے۔ ان پر مزید اس بات کا بھی الزام ہے کہ وہ یمن کے حوثی باغیوں کی مدد کر رہے ہیں۔

ایران نے جنرل راحیل شریف کی اس فوجی اتحاد کی قیادت کی تقرری پر سخت اعتراض کیا ہے۔ ایران کے پاکستان میں سفیر مہدی ہنر دوست نے چار اپریل کو اپنے بیان میں کہا کہ ‘ہمیں خدشہ ہے کہ اس سے مسلمان ممالک کے اتحاد میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔’

پاکستان نے اپنے دفاع میں کہا ہے کہ انھوں نے ایرانی حکومت کو اس تقرری کے بارے میں آگاہ کیا تھا لیکن ایران کی جانب سے جواب آیا کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انھوں نے اس بات کو منظور کر لیا ہے۔ ایران کی جانب سے مشورہ آیا ہے کہ مشرق وسطی میں فوجی اتحاد کے بجائے امن کا اتحاد قائم کیا جانا چاہیے۔

راحیل شریف کی تقرری کے بعد ٹیلیویژن چینلز پر کافی بحث دیکھنے میں آئی ہے اور کئی مبصرین نے سوالات اٹھائے ہیں کہ اس مقبول جرنیل کو کیا ضرورت ہے کہ وہ مشرق وسطی کے پیچیدہ بحران میں ہاتھ ڈالے، جس کے سبب خدشہ ہے کہ پاکستان کو چند مشکل فیصلے کرنے پڑیں اور جن کی وجہ سے اس کے ایران سے تعلقات مزید بگڑ جائیں۔

پرنٹ میڈیا میں بھی اس تقرری کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور حکومت اور فوج کی جانب سے تفصیلات چھپانے کی وجہ سے اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ اس فوجی اتحاد سے ملک کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اخبار پاکستان ٹو ڈے میں شائع ہونے والے اداریے میں کہا گیا کہ ‘حکومت ایسے قدم اٹھانے جا رہی ہے جس کی وجہ سے اس کی مسلم ممالک میں غیر جانبدار حیثیت کمزور ہو جائے گی۔’

پاکستان کی حال ہی میں نئی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ پاکستان شدید مشکلات کے باوجود تہران اور ریاض کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم رکھے گا۔

پاکستان میں ایک طویل عرصے سے میڈیا اور سیاسی حلقوں میں یہ تنقید جاری ہے کہ حکومت ایران کو خارجہ پالیسی میں نظر انداز کرتے ہوئے آرہا ہے حالانکہ وہ ایک اہم پڑوسی ملک ہے۔ جنرل راحل شریف کو اس سعودی عسکری اتحاد کی قیادت دینے سے اس تنقید میں اضافہ ہوا ہے اور ایک غیر یقینی صورتحال سامنے آئی ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کس سمت جائے گی۔

)احمد رشید(


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp