شام کی صورت حال اور کچھ بھیانک پہلو


جنگ زدہ شام میں مبینہ طور پر صدر بشار الاسد کے مخالفین یا باغیوں کے گڑھ ادلب میں شامی حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے مشتبہ حملے اور اس کے جواب میں امریکہ کی طرف سے روسی حمایت یافتہ سمجھی جانے والی اسد حکومت کی اہم دفاعی تنصیبات کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا جانا اور دونوں طرف کے حملوں میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ، معذوری ، بے گھری اور بے بسی، مشرق وسطیٰ اور دنیا میں عالمی طاقتوں کے بے رحمانہ کھیل کے کئی بھیانک پہلوؤں کا پردہ چاک کرتا ہے۔ معاشی اثاثوں کی دولت سے لیس مشرق وسطیٰ جارح طاقتوں کا تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ شام پر امریکی حملے کے ردعمل میں اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے غیر مستقل ممبر ملک بولیویا کے سفیر نے اپنے ردعمل میں کہا کہ’ امریکہ خود ہی تفتیش کار، خود ہی منصف اور خود ہی جلاد بننا چاہتا ہے‘۔ انہوں نے بش انتظامیہ کے سفارت کار کولن پاول کا فوٹو اچھال اچھال کر ’عالمی برادری‘ کو یاد دلایا کہ 2003ء کا وہ وقت یاد کرو جب اس آدمی نے عراق کے حوالے سے ایک جھوٹی، گمراہ کن رپورٹ اقوام متحدہ کے سامنے پیش کی تھی کہ عراق کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ اس پراپیگنڈے کی آڑ میں عراق پر حملہ کیا گیا اور دس لاکھ افراد اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔

اگر خطے اور دنیا کے حالات اور تاریخ کے وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کا دہرا طرزعمل اور جارح پالیسیاں خود اس بات کی غماز ہیں کہ دنیا میں طاقتور کسی قانون، ضابطے یا اخلاق کا پابند نہیں ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے یہ دنیا ایک خوفناک جنگل ہے اور جنگل کے ظالم اور خونخوار جانور کمزور اور بے ضرر جانوروں کو نگلنے ،ان کا خون پی جانے کے درپے ہیں۔

تباہ حال عراق امریکہ کے زیر تسلط ہے اور حالت یہ ہے کہ اب شیعہ مسلک کے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ صدام حسین کے دور میں ہمیں زیادہ آزادیاں نہیں تھیں لیکن امن تھا اور اب تو انفراسٹرکچر، معیشت، امن سب تباہ ہو گیا۔ لیبیا میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے فضائی حملوں سے قذافی کی دفاعی صلاحیت کو تباہ کیا اور اپنے حمایت یافتہ باغیوں کی مدد سے قذافی کا دھڑن تختہ کرایا اور یہ سب کرنے کا جواز یہ پیش کیا کہ لیبیا کے عوام کو ایک ظالم حکمران سے نجات دلا کر جمہوریت نافذ کرنی ہے۔ لیکن مصر میں جب امریکی حمایت یافتہ فوج ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹتی ہے، پرامن مظاہرین پر گولیاں چلاتی ہے، فوج کے جمہوریت مخالف اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جاتا ہے، انہیں امن و امان کے لئے خطرہ قرار دے کر عمر قید اور پھانسیاں دی جاتی ہیں تو امریکہ اس پر یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ یہ مصر کا اندرونی معاملہ ہے اور وہ اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

اب ایک اور پہلو ملاحظہ کیجیے ۔روس اور ایران شام کے حکمران خاندان کی پشت پر کھڑے ہیں۔ شام میں روس کے اثر و رسوخ پر امریکہ کو تشویش ضرور ہے لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے سے عدم تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔ اس حوالے سے دونوں نے فضائی نقل و حرکت کے لئے معلومات کے تبادلے کا معاہدہ کر رکھا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ فضا میں ایک دوسرے کے ہدف کو نشانہ بنانے سے بچا جا سکے تاکہ حادثاتی طور پر کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ اب ریاستی دفاعی تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد روس نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اب اس معاہدے کا پابند نہیں رہا لیکن سوال یہ ہے کہ دونوں ملک اگر اس طرح کا معاہدہ کر سکتے تھے تو امن کے لئے قائدانہ کردار ادا کرنے سے کیوں گریزاں رہے؟ امریکہ اپنے حمایت یافتہ باغیوں یا حزب اختلاف اور روس اپنی حمایت یافتہ حکومت کو امن کے لئے بیچ کی راہ نکالنے پر آمادہ کیوں نہ کر سکا؟ کیا اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ کہ دونوں طاقتیں مقبوضہ علاقے کے حصے بخرے کرنے اور معاشی اثاثوں کی بندر بانٹ کے درپے ہیں؟ پس پردہ ایجنڈا چاہے کچھ بھی ہو مگر یہ بات واضح ہے کہ دونوں جارح عالمی طاقتیں مشرق وسطیٰ میں امن نہیں چاہتیں بلکہ اپنا تسلط مستحکم بنانا چاہتی ہیں۔

اب ایک پہلو اور ملاحظہ فرمائیں۔ اس وقت مشرق وسطیٰ اور کئی دیگر مسلمان اکثریت والے ممالک میں فرقہ واریت کا کینسر پوری طرح سے پھیل چکا ہے اور یہی وہ کینسر ہے جو ان ممالک کو مل بیٹھ کر مسائل کو سمجھنے اور ممکنہ حل نکالنے کی طرف پیش رفت میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور فرقہ واریت کا یہ زہر ہی ہے جو ان کو ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لئے امریکہ اور روس ایسی طاقتوں کا آلہ کار بننے پر آمادہ کر دیتا ہے۔ ایسے بیشتر ممالک میں امریکہ کی جڑیں اس حد تک مضبوط ہیں کہ امریکی بجٹ میں باقاعدہ ان ممالک کے حکمران خاندانوں یا امریکہ نواز عناصر کے لئے رقم مختص کی جاتی ہے۔ ’ایڈ‘ کے نام پر دی جانے والی اس امداد کی رقم کے ثمرات ان ممالک کے غریب عوام تک کبھی پہنچ نہیں پاتے کہ طبقہ اشرافیہ اور عوام میں وسیع خلیج حائل ہے۔ اس کے لئے میرے نزدیک زیادہ مناسب الفاظ میں یہ آقا اور تنخواہ دار ملازمین یا ایجنٹس کی طرح کا تعلق ہے۔

شام میں امریکہ کی براہ راست کارروائی پر ترکی، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کی دیگر سنی حکومتیں امریکی صف میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردوان نے یہاں تک کہہ دیا کہ میزائل حملے ناکافی اقدام ہیں اس سے بھی زیادہ سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وقت اور ضرورت کے تحت امریکہ کے حلیف اور حریف بدلتے رہتے ہیں۔ اپنے مفاد اور اہداف کے حصول کے لئے یہ جب چاہیں کسی ملک ، حکومت یا فرد کو ناپسندیدگی یا دہشت گردی کی فہرست میں ڈال لیتے ہیں اور ضرورت پڑے تو نکال بھی لیتے ہیں۔ جیسا کہ80 ءکی دہائی کے دوران عراق ایران جنگ میں امریکہ عراق کی پشت پر کھڑا ہو گیا تھا۔ فروری 1982ءمیں عراق کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ’سٹیٹ سپانسرز آف ٹیررازم‘ لسٹ سے نکال لیا گیا۔ تاریخ کی مستند معلومات اور حوالے یہ بتاتے ہیں کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائیوں کے لئے سی آئی اے اہلکار انٹیلی جنس شیئرنگ سے لے کر ہتھیاروں کی ترسیل تک تمام تر معاونت فراہم کر رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے یہ رپورٹ کیا کہ عراق نے جنگ میں تباہ کن کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے تو اس وقت کی ریگن انتظامیہ نے اس پر کان نہ دھرے کیونکہ اس وقت امریکہ ہر حال میں صدام حسین کے عراق کو حاوی دیکھنا چاہتا تھا۔

80 ءکی ہی دہائی میں امریکہ اور روس افغان محاذ پر آمنے سامنے تھے تو اس وقت پاکستان امریکہ کا آلہ کار بنا ہوا تھا اور جو افغانی، عرب اور پاکستانی لوگ افغانستان میں روس کے خلاف لڑ رہے تھے وہ امریکہ کے ’ہیروز‘ تھے۔ نائن الیون کے بعد وہی لوگ امریکہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دے دیے گئے اور ایک بار پھر پاکستان امریکہ کا آلہ کار بن گیا۔

آج سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جارح عالمی طاقتوں کے دنیا پر کنٹرول کی جنگ اور ان کے تنخواہ دار ملازموں کی عوام دشمن پالیسیوں کا یہ تسلسل کب تک برقرار رہے گا۔ دنیا کے معصوم انسان کب تک ان جنگوں کا ایندھن بنتے رہیں گے؟ اور اقوام متحدہ کے قائم رہنے کا کیا جواز باقی رہ گیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).