عظیم موسیقار سلیم اقبال کی یادیں


استاد سلیم اقبال سے ملاقات کیسے ہوئی؟ 1979ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا نیو ہاسٹل بالکل اسی جگہ پر تھا جہاں آج موجود ہے۔ نیو ہاسٹل اس لیے کہلاتا تھا کہ یہ نیا تعمیر ہوا تھا۔ خیر اب تو یہ ہاسٹل تیس چالیس برس کا معمر نوجوان ہے۔ ایک دن شام کو کسی کام گوالمنڈی، جو اب فوڈ سٹریٹ کہلاتی ہے، کے آخرمیں پہنچا توسازکی خوبصورت آواز سنائی دی۔ ذرا آگے جا کر دیکھا تو ایک چھوٹی سی دکان تھی جس میں مختلف ساز لٹکے ہوئے تھے۔ حیرت ہوئی کہ پہلے نظرکیوں نہیں پڑی۔ دکان کے عین درمیان میں ایک نوجوان لکڑی کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑ رہا تھا اور باریک تاریں بھی لگا رہا تھا۔ یہ ستارکی تیاری تھی۔ دکان کے کونے میں سادہ سے کرتے شلوار میں ملبوس ایک لحیم شحیم آدمی ستار بجا رہا تھا۔ چہرے پر نظر کا چشمہ تھا۔ پہلی نظرمیں پروفیسر کا گمان ہوتا تھا۔

دکان کے سامنے کھڑے ہوئے چند منٹ گزرے تھے کہ ایک نوجوان دکان میں داخل ہونے لگا اور مجھ سے کہا کہ آپ اندر آ جاؤ۔ اندر دو سٹول پڑے تھے۔ ایک پر اجازت لے کر بیٹھ گیا۔ بزرگ آدمی بدستور ستار بجانے میں محو تھا۔ پکے رنگ کا یہ آدمی میرے لیے اجنبی تھا۔ خیر باتیں شروع ہو گئیں۔ ستار بنانے والے نے پوچھا کہ میں کون ہوں۔ جو نوجوان دکان میں داخل ہوا تھا، وہ بھی پوچھنے لگا کہ کیا مجھے موسیقی سے کوئی شغف ہے۔

تعارف پر پتہ چلا کہ نوجوان کا نام حنیف ہے اور یہ دکان اس کے بڑے بھائی کی تھی۔ حنیف، کونے میں بیٹھے ہوئے مدبرا ٓدمی سے گانے کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ حنیف غضب کا گلوکار تھا۔ کونے میں بیٹھا ہوا شخص باتوں میں ہمارے ساتھ شامل ہو گیا۔ بتانے لگا کہ میرانام سلیم اقبال ہے اور میوزک ڈائریکٹرہوں۔ مجھے نام سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ حنیف کو ہاسٹل کا کمرہ نمبر بتایا اور کہا کہ جب بھی وقت ہو، ہاسٹل آ جائے۔ چند دن بعد، شام کو حنیف میرے کمرے میں آ گیا۔ اس کے ساتھ سلیم اقبال بھی تھے۔

دوسری ملاقات میں بھی قطعاً اندازہ نہیں تھاکہ یہ بوڑھا انسان کتنے اعلیٰ درجہ کا میوزک ڈائریکٹرہے۔ چند دنوں بعد حنیف دکان سے پرانا سا ہارمونیم لے آیا اور کمرے میں رکھ دیا۔ جب بھی موڈ میں ہوتا تو کمال کی غزلیں سناتا۔ سلیم اقبال صاحب نے بھی اب ہاسٹل آنا شروع کردیا۔ تین چارمہینے گزرگئے۔ ہفتہ میں تین چار بار سلیم اقبال دوپہر کو ہاسٹل آ جاتے تھے۔ نیچے لگے ہوئے اخبار پڑھتے تھے۔ اگرمیں کمرے میں نہ ہوتا تو بند ہاسٹل کے سامنے بنچ پر انتظار کرتے تھے۔ یقین فرمائیے کہ میں اس عظیم ڈائریکٹرکے مقام سے مکمل طور پر نابلد تھا۔ سلیم اقبال کمرے میں آ کر ہارمونیم پر گانا شروع کر دیتے تھے۔

ایک دن ارشد بٹ کے گھر گیا توارشد کمرے میں بیٹھا بادل ناخواستہ میڈیکل کی ضخیم کتابیں پڑھنے میں مصروف تھا۔ ارشد بٹ علامہ اقبال میڈیکل کالج میں پڑھ رہاتھا۔ ارشد کے والد ریٹائرمنٹ کے بعد لائل پور سے لاہورمنتقل ہو گئے تھے۔ ریگل چوک سے تھوڑا آگے گھرخریدا تھا۔ والد کی شدید خواہش تھی کہ بیٹا ڈاکٹر بنے۔ ارشد بنیادی طور پر ادب اور موسیقی کا انسان تھا اور ہے۔ اسے ہمیشہ مردِ صحرا لکھتا ہوں۔ مجھے موسیقی کی بنیاد سے متعارف کروانے والا یہی مردِ صحرا ہے۔

ارشد کے والد محترم ایس ڈی بٹ صاحب امریکا سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی تھے۔ پچاس کی دہائی میں امریکا جا کر علم حاصل کرنے والے بہت کم لوگ تھے۔ بڑے بٹ صاحب کویونیورسٹی نے امریکی شہریت لینے کا کہا۔ ساٹھ ستر برس پہلے امریکی شہریت حاصل کرنا بہت آسان تھی۔ بڑے بٹ صاحب نے یونیورسٹی کے ڈین سے کہا کہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ اپنے آبائی ملک یعنی پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی شہریت سے انکار کر کے لائل پورکی زرعی یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا۔ آخری دم تک پڑھاتے رہے۔ انتہائی وجیہہ اور بلند قامت شخصیت۔ جب جناح کالونی کی کسی سڑک سے گزرتے توہماری عمرکے بچے ان کے رعب کی بدولت آگے پیچھے ہوجاتے۔ خیر ارشد بٹ سے باتوں باتوں میں کہاکہ ایک موسیقارسلیم اقبال چند مہینوں سے میرے کمرے میں آ رہے ہیں۔ آج تک یاد ہے۔ مردِ صحرا ایک دم چوکنا ہوگیا۔ کتابیں ایک طرف رکھ دیں۔

پوچھنے لگا، کون،کس کی بات کررہے ہو۔ جب دوبارہ سلیم اقبال کا بتایا تو حیرت سے پوچھنے لگا کہ کیا تم استاد جی کو جانتے ہو۔ میراجواب نفی میں تھا۔ ارشد کو تو جیسے کرنٹ لگا ہو۔ بتانے لگا کہ نہ صرف پاکستان،بلکہ سلیم اقبال تو برصغیرکے نایاب اوربلند پایہ موسیقاروں میں سے ایک ہیں۔ مردِ صحرا نے مجھے استادجی کی دس بارہ پرانے نغموں کی دھنیں سنانی شروع کر دیں۔

ارشد کا بہت بڑاوصف ہے کہ اسے موسیقی پرمکمل عبورحاصل ہے۔ آج بھی اس کے سامنے کسی غزل یا نغمہ کا ذکر کریں۔ وہ شاعر، موسیقار اور گلوکار کے متعلق سب کچھ بتائے گا۔ ارشد کو خیر یقین نہ آیاکہ سلیم اقبال ہاسٹل آتے رہتے ہیں۔ اگلے دن وقت مقرر ہوا۔ تقریباً شام کے چار پانچ بجے ہاسٹل میں اکٹھے ہو گئے۔ سلیم اقبال صاحب بھی آ گئے۔ مردِ صحرااور سلیم اقبال کی باہمی گفتگو اس درجہ دلچسپ اوراعلیٰ تھی کہ واقعی حیران سا ہو گیا۔ پتہ چلا کہ، آفاقی نغمہ’’اے راہِ حق کے شہیدوں، وفا کی تصویرو‘‘کی دھن سلیم صاحب نے ترتیب دی تھی۔

پنجابی کا مشہور ترین نغمہ،’’دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘‘ بھی انھی کی دھن تھی۔ ’’سانوں نہر والے پُل تے بل اکے‘‘ بھی اسی عظیم موسیقارکے ذہن میں ترتیب پایا تھا۔ اس کے علاوہ سیکڑوں ایسے زبان زد عام نغمے تھے جواسی عظیم انسان نے ترتیب دیے تھے۔ خیر اب سلیم اقبال کی قدروقیمت کا بتدریج اندازہ شروع ہوگیا۔

ایک دن امتحان سے فارغ ہو کر کمرے میں بیٹھا تھا، سلیم صاحب آئے اور کہا کہ ریڈیو پاکستان چلتے ہیں۔ میرے پاس موٹرسائیکل تھی۔ ہم دونوں شملہ پہاڑی کے ساتھ ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ میں پہنچ گئے۔ انھیں آدھے گھنٹے کا کوئی کام تھا۔ اس کے بعد دونوں کینٹین میں آگئے۔ وہاں غلام علی بیٹھا ہوا تھا۔ یہ 1979-80ء کی بات ہے۔ غلام علی اس وقت تک شہرت کے زینہ پرقدم رکھ چکا تھا۔ حد درجہ عاجز اور ملنسارانسان۔ میں نے فرمائش کی کہ غلام علی صاحب کچھ سنائیے۔ کینٹین میں یہ فرمائش خاصی غیرمناسب تھی۔ غلام علی نے بالکل برا نہیں مانا۔ انتہائی تمیزسے سلیم اقبال سے اجازت لی۔

لکڑی کی میز پر اپنے ہاتھوں سے ایک آواز پیدا کی اور پھر اس نے جادوئی آوازسے سماں باندھ دیا۔ اپنی تین چار شہرہ آفاق غزلیں سنائیں کہ لطف آگیا۔ اس کے بعد ہم سب نے بوسیدہ سے برتنوں میں چائے پی اور ہاسٹل واپس آ گئے۔ میں نے محسوس کیا کہ بڑے انسان اپنے رویہ میں بھی بڑے ہوتے ہیں۔ شہرت،دولت یاغربت ان کے لیے بے معنی ہوتی ہے۔ ان لوگوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔ تمام اہل فن لوگ حقیقت اور غیرحقیقت کے درمیان بے نیازی سے زندگی گزارتے ہیں۔ کسی انعام یا صلہ کی توقع کے بغیر۔

سلیم صاحب اب اکثر ہاسٹل آ جاتے تھے۔ ایک دن لائل پور سے ظفر آیا ہوا تھا۔ احمد فراز کی ایک غزل کی دھن بن رہی تھی۔ ظفرنے اس دھن پر انتہائی اچھے طریقے سے غزل گانا شروع کر دی۔ سلیم صاحب نے ظفر کو مشورہ دیا کہ باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل کرے۔ ظفر تقریباً دو سے تین سال اس عظیم موسیقار سے علم حاصل کرتا رہا۔ ظفر نے باقاعدہ کئی مقامات پر بہت اچھا گانا شروع کر دیا۔ آج کل نیویارک میں ہے۔ جب بھی پاکستان آتاہے تو سلیم اقبال کی تیارکردہ غزلیں ضرور سناتا ہے۔ ظفر بھی ایک عجیب سا شخص ہے۔ لاابالی نظرآنے والا انتہائی سنجیدہ شخص۔ پربہار اور قہقہے بکھیرنے والا انسان۔

سلیم اقبال صاحب میں اس درجہ قناعت اورسنجیدگی تھی کہ کسی پر بوجھ نہیں بنتے تھے۔ ایک دوپہرکو گوالمنڈی میں کھانے کا وقت ہو گیا۔ انھوں نے ایک نان لیا اور آلوکی ٹکی کے ساتھ خاموشی سے کھا لیا۔ پانی پیتے ہوئے خدا کا باربار شکر ادا کررہے تھے۔ جس وقت ان سے ملاقات ہوئی، ان پر زوال کا وقت تھا۔ شہرت اور آسودگی کی دیوی ان کی زندگی سے بہت دور جا چکی تھی۔ مگرمیں نے کبھی انھیں شکوہ کرتے نہیں سنا۔ وہ ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتے رہتے تھے۔

سلیم اقبال جیسا موسیقارانتہائی مشکل حالات سے دوچار رہا۔ اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ زندگی کی دوڑ اور گھریلو ضروریات کو کیسے متوازن کرے۔ شدید ناقدری اورزمانے کی سفاکی سے بے بس انسان ایک دن فالج کا شکار ہوگیا۔ کوئی اس کی مالی امداد کے لیے نہ پہنچا۔ اسی رنج و الم اور بے بسی میں سلیم اقبال دنیا سے چلا گیا۔ اس کی بنائی ہوئی دھن’’اے راہِ حق کے شہیدوں، وفا کی تصویرو‘‘ پر لوگ آنسو بہاتے ہیں۔ روتے ہیں۔ مگرکوئی اس عظیم موسیقار کو یاد نہیں کرتا جو اس ترانے کی دھن کاخالق تھا۔

ہم ہرشعبے میں ناقدری کرنے والے لوگ ہیں۔ سلیم اقبال بھی اسی ناقدری کا شکاررہا۔ اسے آج تک اس کا مقام نہیں مل سکا مگر یہاں ہر بڑے آدمی کو اس کا مقام کہاں ملتا ہے۔ موسیقار کیا، یہاں تمام اہل فن اپنی اپنی جگہ المیہ کی تصویر ہیں۔ دولت تودور کی بات ہے،عزت کی تلاش میں ہی فنا کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ سلیم اقبال جیسا عظیم موسیقار اسی راہِ فنا کا مسافر تھا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).