ہیرو گیلری کی پہلی تصویر: بیکر سٹریٹ کا کیمیا گر


اِس آگ برساتے گرم موسم میں برفیلی ہواﺅں کا تصور کرنا مشکل تو ہے، لیکن کوشش کرتے ہیں۔ سرد ترین موسم میں گرم بستر چھوڑ کر، منہ اندھیرے دھند میں لپٹی گلیوں میں باہرنکلنا اور اپنے شہر کے ریلوے سٹیشن سے کسی قصباتی منزل کے لیے گاڑی پکڑنا کتنا آسان امر ہے؟ اور پھر اس مشقت کو گرم جوشی سے انجام دینا، وہ بھی اپنی مکمل مرضی اور آزادی سے؟ اور کام بھی آپ کا اپنا نہیں بلکہ آپ کے رفیق کا ہے، جس میں آپ کا تجربہ اور صلاحیت آپ کے دوست کی مہارت کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہو۔ کہتے ہیں، نہ کرنے کے سو بہانے۔ تو وہ سب بہانے آپ کو میسر سمجھیں۔ لیکن آپ پھر بھی تمام تر جذبہ سے نکل پڑیں۔ کیا ممکن ہے؟

یہ سب ممکن ہے، اگر جس گھر سے آپ نکلیں، اس کا ایڈرس 221-B بیکر سٹریٹ ہے، جو کہ لندن شہر میں واقع ہے۔ اور آپ کا دوست شرلک ہومز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ آپ کا اسم گرامی ڈاکٹر واٹسن ہو کہ اس سفر پر ہومز کے ساتھ ہر وہ قاری سفر کر چکا ہے، جو سسپنس اور ایڈونچر کے ساتھ ساتھ استدلال کو عزیز جانتا ہے۔ کبھی لندن جانا ہوا تو بیکر سٹریٹ ہمارا پہلا سٹاپ ہو گا۔ یہ یاترا اپنے بچپن پہ قرض ہے۔

سپر ہیرو فکشن کا ایک اہم جزو ہیں۔ مافوق الفطرت کردار، جن کی صلاحیت عام انسان کی پہنچ سے یکسر باہر ہو۔ اڑتا پھرتا سپر مین، عمارتیں پھلانگتا سپائڈرمین اور ایسے مزید کردار۔ لیکن سراغ رساں اور فلسفی کا مرکب یہ کیمیا گر (جاسوس لکھنے کی تاب نہیں، ببر شیر کو بڑی سی بلی کہنے جیسا لگتا ہے) عام انسان کی دسترس میں ہے۔ بیشک امر محال ہے، لیکن ممکن تو ہے۔ آپ اڑنے کی مشق نہیں کر سکتے، لیکن مشاہدہ اور استدلال کی کوشش بہرحال کر سکتے ہیں۔ خود شرلک ہومز ایک بڑی خوبصورت اصطلاح استعمال کرتا ہے، خیالات کی ٹرین۔ سو یہ گاڑی کن رستوں سے ہوتی ہوئی منزل پہ پہنچی، ہومز اپنے قاری کو سب بتا تا ہے۔ یہ شعبدہ بازی نہیں ہے جہاں آپ بتا ہی نہ سکیں کہ کبوتر ٹوپی سے کیسے برآمد ہوا۔
پاسبا ن عقل ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کردار کا مرکزی خیال ایڈگر ایلن پو کے دوپن سے لیا گیا ہے۔ بے شک درست۔ مزید یہ کہ ایڈگر ایلن پوکو شرلک ہومز کے خالق آرتھر کونن ڈائل سے عظیم تر لکھاری بھی کہا جاتا ہے ۔اس پر بھی آمین! یہ گہرے پانی ہیں جہاں صرف وہی اتر سکتا ہے جس کی تیاری بھر پور اور طبیعت بحث پر آمادہ ہو۔ یہاں تو رائے بھی ایک بڑا اور بھاری لفظ ہے۔ عاجز تو صرف اپنی پسند بیان کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ آم اور سیب کا موازنہ ہمارے بس میں نہیں۔ اس قبیل کے مزید فکشنل کردار بھی آئے۔ اگاتھا کرسٹی کا پوائرو ایک بھر پور اور مکمل افسانوی کردار ہے ۔ لارڈ پیٹر ومسے بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ سب اپنے مشاہدے اور استدلال کے سپر ہیرو تھے۔ لیکن شرلک ہومز، شرلک ہومز ہے۔ ایسے ہی جیسے لاہور لاہور ہے۔ کہیں پڑھا کہ ایک صاحب نے لاہور سے متعلق یہ فقرہ سن کر کہا، توجانی کیا ملتان کراچی ہے؟ یا فیصل آباد پشاور ہے؟ اب چھوٹا منہ بڑی بات۔ اس لیے خود رسک لینے کے بجائے مرشدی مشتاق احمد یوسفی کے پیچھے چھپنا بہتر ہے۔ فرمایا پھبتی سے آپ لاجواب ہو سکتے ہیں، قائل نہیں۔ آپ بے بہرہ ہیں جو معتقد میر نہیں۔

لٹریچر پر اپنے انشائیوں میں ایک جگہ اٹالو کالوینو لکھتے ہیں کہ کلاسیک ایک ایسی کتاب ہے جو ابھی تک اپنا پیغام مکمل نہیں کر پائی۔ نسل در نسل قاری اس سے نئے معانی اور نکتے دریافت کرتے رہتے ہیں، سیری نہیں ہوتی، لیکن اکتانے کا بھی سوال نہیں۔ اگر اس کسوٹی کو صحیح مان لیں تو شرلک ہومزکی کہانیاں لازمی کلاسیک ہیں۔ اس کیمیا گر کا ظہور ایک سو تیس برس پہلے ہوا۔ اس دیومالائی کردار سے متاثر ہونے والوں کی کمی نہیں۔ سنکی لیکن فطین ڈاکٹر ہاﺅس ہو یا اپنے روم میٹ کے ساتھ رہتا شیلڈن کُوپر، آپ کو ان میں ہومز کی جھلک نظر آئے گی۔ یہاں تک کہ ہمارے قابل فخر پطرس بخاری بھی ایک خوبصورت جاسوسی افسانہ اسی طرز پر لکھ چکے ہیں، جہاں راوی اپنے زہین دوست کے کارنامے بیان کرتا ہے ۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ ز کے مطابق یہ دنیا کا سب سے زیادہ فلمایا جانے والا افسانوی کردار ہے۔ ہر دہائی بعد ہومز کی ایک نئی تشریح سامنے آتی ہے۔ لیکن، سیری نہیں ہوتی۔ اب تو اس
کردار پر بننے والی د و متفرق سیریز میں ہومز کو اکیسویں صدی میں چلتا پھرتا دکھایا گیا ہے۔ ان دونوں میں سے ایک سیریز میں تو اس کو لندن سے نیو یارک شفٹ کر دیا گیا ہے۔ دعا ہے کہ یہ تجربات جاری رہیں۔کہ زمانہ بڑے شوق سے سن رہا ہے اور داستان گو بھی سوئے نہیں۔ گرم میدانوں سے لے کر سرد وادیوں تک، اہل دل ہمیشہ برضا و رغبت اپنی میٹھی نیند چھوڑ کر، چیرنگ کراس سٹیشن سے گاڑی پکڑتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).