جو مشال کے ساتھ ہوا تو آپ کیا کریں گے؟


اگر اگر اگر

اگر تمام گستاخ بلاگروں کو پھانسی دے دی جاتی تو ایسا نہ ہوتا۔

اگر ممتاز قادری کو پھانسی نہ دی جاتی تو ایسا نہ ہوتا۔

اگر مدرسے نہ ہوتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔

اگر ہم اِسلام کی صحیح تعلیمات پر عمل کرتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔

اگر ہم اچھے مسلمان نہ صحیح اچھے اِنسان ہی بن جاتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔ ہم حیوان ہیں حیوان۔

سفید کاغذ سامنے رکھ کر قلم اُٹھایا تو کاغذ کفن جیسا لگا۔ دِل سے آواز آئی چلو شروع ہو جاؤ کفن فروشی کے دھندے پر پھر خیال آیا کہ کفن پر تو صرف کلمہ شہادت لِکھا جاتا ہے۔

جو گواہی مردان میں دی گئی اُس کے لیے ایمان بھرے سینوں اور موبائل فونوں سے مسلح سینکڑوں نوجوان موجود تھے۔

اگر حکومت اِن نوجوانوں کو اِسلامی تعلیمات دینے کے بعد خود اِس پر عمل نہ کرے تو یہ لوگ کیا کریں؟ اگر ریاست کے سب سے طاقتور ادارے یہ کہنے لگیں کہ ریاست کے نظریاتی دشمنوں سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اُن پر گستاخی کا الزام لگا دو تو کوئی کچا پکا مسلمان بھی خاموشی سے گھر نہیں بیٹھ سکتا۔

کیا ہم اپنے سفاک بیرونی دُشمنوں سے لگی ساری جنگیں جیت چکے ہیں کہ ہم نے ایک ایسی نئی جنگ چھیڑ لی ہے جو کہ گھر گھر میں ہو گی۔

ہماری ریاست کے پاس اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے پہلے ہی بہت سے طریقے موجود ہیں، گمشدگیاں، قید و بند، معاشی جبر لیکن کیا اب ریاست فیصلہ کر چکی ہے کہ جس کی شاعری پسند نہ آئے، جِس کی فیس بک پر اپڈیٹ پسند نہ آئے تو پہلے جتھوں کے جذبات انگیخت کیے جائیں اور اُنہیں اپنے مخالفین پر چھوڑ دیا جائے۔

پاکستان میں مسجدیں جتنی آباد ہیں اِتنی پہلے کبھی نہ تھیں اِسلامی تعلیمات کا بول بالا ہے، لیکن کیا نظریہ پاکستان یہ ہے کہ ہر عاشق رسول کے دِل میں شک ڈالا جائے کہ اُس کے ساتھ کھڑا نمازی کہیں نعوذ بااللہ گستاخ تو نہیں ہے۔

اگر مسئلہ مدرسوں اور مسلکوں تک محدور ہوتا تو آپ آپریشن پر آپریشن کرتے جاتے لیکن مردان میں یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں کیا پڑھایا جا رہا تھا۔ اگر ملک کا مسئلہ جہالت ہی ہے جیسا کہ سیانے ہمیں سالوں سے بتاتے آ رہے ہیں تو سلام ہے اُن کروڑوں بچوں پر جنہوں نے کبھی کِسی کلاس روم کے اندر قدم نہیں رکھا شاید وُہ جاہل بچے ہی اِس ملک کا مستقبل ہیں۔

اگر اِنسانوں اور حیوانوں کی بات ہی کرنی ہے تو تھوڑی دیر کے لیے خبریں دیکھنا چھوڑیں چینل بدلیں اینیمل پلانٹ پر حیوانوں کو حیوانوں کو مارتا دیکھیں۔

وُہ اپنا پیٹ پھرنے کے لیے مارتے ہیں، یا اپنے بچوں کی جان کے تحفظ کے لیے۔ کیا کبھی کِسی حیوان نے اپنے دشمن کو مار کر اُس کی لاش پر پتھر مارے ہوں یا اُس کی لاش کی تصویریں کھینچی ہوں تاکہ بعد میں مزہ دوبالا کر سکے تو ایسا حیوان ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔

اگر مگر کرنے والے اپنے دِل پر ہاتھ رکھ کر کلمہ شہادت پڑھیں اور سوچیں کہ اگر آپ ماں یا باپ ہوتے۔ اگر صبح اپنے اکلوتے بچے کو یونیورسٹی میں صحافت کی تعلیم کے لیے بھیجیں بیٹا بھی واپس نہ آئے، اُس کی لاش بھی واپس آنے سے پہلے اُس کی وائرل ویڈیو آ جائے، جس میں اُس کے ہم عمر، اُس کے ساتھی، شاید کاس فیلو بھی وہ کر رہے ہوں جو مشال کے ساتھ ہوا تو آپ کیا کریں گے؟

اللہ نہ کرے کِسی ماں باپ پر یہ وقت آئے لیکن جن پر آ گیا ہے وُہ ساری عمر یہ کہتے پھریں گے، کہ مگر میں نے تو پیدا ہوتے ہی اُس کے کان میں اذان دی تھی۔ جب توتلی زبان میں بولنے لگا تو میں نے سب سے پہلے اِسے کلمہ شہادت سِکھایا تھا۔

مگر جب یہ پانچ سال کا تھا تو اپنے ساتھ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد لے جاتا تھا جہاں یہ اِدھر اُدھر دیکھ کر اِس معصومیت سے سجدے میں جاتا تھا کہ ساتھ والے نمازی مسکرا دیتے تھے۔ میرے بیٹے نے تو کبھی اپنے سے بڑے کے سامنے بلند آواز سے بات نہیں کی وُہ دنیا کی سب سے پاک ہستی کی شان میں گستاخی کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔ لیکن اگر، اگر، اگر وُہ ایسا کرتا تو میں اپنے ہاتھوں سے اُس کا۔۔۔

بشکریہ بی بی سی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).