نوازشریف کی سندھ میں سیاسی چالیں


آصف زرداری نے اپنے حالیہ ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم نے نوازشریف کی سندھ کی جانب دوڑیں لگوا دی ہیں۔ اگر ہم کام نہیں کرتے ہیں تو ہمیں سندھ میں ووٹ کیوں ملتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں سندھ میں اپنا آئی جی تک نہیں لگانے دیا جا رہا۔ مسلم لیگ نون نے الیکشن سے پہلے ہی دھاندلی شروع کر دی ہے۔ مسلم لیگ نون بیچاری کی اتنی اوقات بظاہر ہے نہیں کہ وہ سندھ میں کسی کونسلر کے الیکشن میں بھی باعزت مقابلہ کر سکے۔

پھر بھی سندھ کی حد تک اب آصف زرداری انڈرپریشر دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے سندھ میں زیرو اپوزیشن ماڈل اپنانا شروع کر دیا ہے۔ ہر وہ بندہ جو الیکشن جیت سکتا ہے وہ اسے پی پی میں شامل کرتے جا رہے ہیں۔ سندھ میں پی پی کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت بظاہر موجود ہی نہیں ہے۔ ایسے میں بھی زرداری صاحب کا سندھ بھرمیں کوئی پی پی مخالف امیدوار ہی باقی نہ رہنے دینا سمجھ میں نہیں آتا۔ پی پی کو اگلے سال الیکشن میں جانا ہے جب اسے سندھ میں حکومت کرتے دس پورے ہو چکے ہوں گے۔ یہ پریشر یہ خوف پر پی پی کی سندھ حکومت کی دس سالہ پرفارمنس کا ہی ہے۔

ناتجربہ کاری عدم کارکردگی اہم عہدیداروں کا لالچ اور بے قابو جیالے مل جل کر اپنی سرکار کا جیسے حشر کیا کرتے ہیں سندھ حکومت ویسی سی ستم زدہ سرکار ہے۔ اس مفلوک الحال حکومت کو نیا سیاپا بس اتنا سا رہا کہ مسلم لیگ نون کی وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو پچھلے چار سال میں چین کا ایک پل نصیب نہیں ہونے دیا۔ اپنی انتظامی مہارت کو خاموشی سے ایسے استعمال کیا ہے کہ سندھ حکومت کا امیج پاکستان کی کمزور ترین حکومت کا بنا کر رکھ دیا ہے۔ عام ووٹر تو چھوڑیں پی پی کے اپنے لوگوں کا بھی اسی پر یقین ہے کہ نکمی ترین حکومت انہی کی ہے۔

متحدہ اور پی پی شہری اور دیہی سندھ کی دو ہی نمائندہ سیاسی قوتیں ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کو کسی قسم کا کوئی معمولی سا سیاسی چیلنج اپنے اپنے حلقہ اثر میں درپیش نہیں۔ مسلم لیگ نون سندھ کے شہر ہوں یا دیہات دونوں جگہ سے فارغ ہے۔ حالانکہ نوے کی دہائی میں دو بار مسلم لیگ نون سندھ میں اپنی حکومت بنا چکی ہے۔ سندھ میں حکومت بنانے کا تجربہ نوازشریف کے لیے ایک ڈراؤنے خواب جیسا رہا۔ سندھ حکومت ایسی نام نہاد مسلم لیگی حکومت ہوتی تھی جس پر نوازشریف کا ذرا کنٹرول نہیں ہوتا تھا۔ الطاف بھائی اتحادی ہوتے تھے ان کی سیاست تب نوجوان تھی۔ مسلم لیگ نون کے سندھی لیڈر اور الطاف بھائی کی متحدہ روزانہ کی بنیاد پر ایک پلا ہوا بڑا سا سنڈا نوازشریف کی سیاست کو ٹکریں مارنے کے لیے کھولا کرتے تھے۔

نواز شریف جلاوطن ہوئے پاکستان واپس آئے ان کی سیاست بحال ہوئی لیکن وہ سندھ نہیں گئے۔ انہوں نے سندھ میں اپنی پارٹی اپنی سیاست کو بالکل ہی معطل کر دیا۔ سندھ میں کئی ایسے حلقے تھے اب بھی ہیں جہاں پنجابی سیٹلر فیصلہ کن ووٹ رکھتے ہیں۔ یہ نوازشریف کا پکا ووٹ ہوتا تھا، اس ووٹ کو بھی نوازشریف نے اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ اس کا ایک فائدہ بھی ہوا کہ دو ہزار دو کے الیکشن کے بعد سندھ میں آباد پنجابی ووٹر جو پی پی مخالف ہی چلتا تھا وہ پی پی کی جانب گیا۔ ایک خواہ مخواہ کے تناؤ میں کمی آئی کچھ لوگ پی پی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی پہنچے۔ آصف زرداری کے اپنے آبائی حلقے سے بھی طارق مسعود ارائیں ممبر صوبائی اسمبلی بنے۔

نوازشریف نے سندھ کی سیاست کو اس کے حال پر چھوڑ کر اپنے لیے بڑا سیاسی فائدہ حاصل کیا۔ جب وہ سندھ کی سیاست سے نکلے تو پی پی کو کھلا میدان مل گیا۔ پی پی کو سندھ مل گیا پاکستانی سیاست میں موجود تناؤ میں کمی آ گئی۔ آصف زرداری نے دل بڑا کیا اور ضرورت نہ ہوتے ہوئے بھی متحدہ کو صوبائی حکومت میں شریک کر کے پاکستان میں سیاسی ٹمپریچر کو بالکل ہی نارمل کر دیا۔ فائدہ یہ ہوا کہ تیسری قوتوں کو مداخلت کے نہ تو مواقع ملے نہ وجوہات۔ سیاستداںوں کو نقصان یہ ہوا کہ ووٹر کی عقل ٹھکانے آئی وہ نظریات کی بحث سے باہر آیا اور پرفارمنس کی جانب دیکھنے لگ گیا۔ اب حکومتی پرفارمنس ہی پاکستان میں سیاست کا ڈرائیونگ فیکٹر بننے جا رہی ہے۔ اسی پرفارمنس پریشر نے کپتان اور اس کی جماعت اپنی حکومت کے آخری سال ہوش دلایا ہے۔

نوازشریف اپنے ساتھ زیادتی کرنے کو بھولتے نہیں ہیں۔ ان کی سندھ میں اپنی صوبائی حکومتوں کے حوالے سے یادیں خوشگوار نہیں ہیں۔ انہیں اپنے اتحادیوں کی مطلبی سیاست بھی یاد ہے۔ پی پی کو بھی وہ حریف ہی سمجھتے ہیں البتہ وقت نے انہیں یہ سکھا دیا ہے کہ کسی بھی پارٹی کے مینڈیٹ کے احترام کرنے میں فائدہ اپنا ہی ہوتا ہے۔

آج کل میڈیا میں کراچی آپریشن کا کریڈٹ فوج کو جنرل راحیل شریف کو دے کر اپنے نمبر ٹانگنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ فوج کو بطور ادارہ پروفیشنل ازم کے کارکردگی کے پورے نمبر دینے بنتے ہیں۔ راحیل شریف کو بھی کریڈٹ جاتا ہے۔ کراچی میں سندھ میں رینجرز کو آپریشن کے لیے استعمال کرنے کے فیصلے کے پیچھے بحرحال نوازشریف ہی تھے۔ اس کا سیاسی فائدہ بھی انہیں ہی ہوا۔ سندھ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی سیاست کو نقصان پہنچا۔ پی پی کی صوبائی حکومت اپنے پورے دور میں انڈر پریشر ہی رہی۔

رینجرز تو سندھ میں دو دہائیوں سے امن و امان سنبھالنے میں صوبائی حکومت کی معاونت کر رہی ہے۔ جو رینجرز صوبائی حکومت کے ماتحت تھی اس کو سندھ حکومت کا ہی مکو ٹھپنے کے لیے استعمال صرف مسلم لیگ نون نے کیا ہے۔ سندھ آپریشن کا فیصلہ اگر سابق آرمی چیف کا ہوتا تو ان کی خواہش تو پنجاب میں آپریشن کی بھی تھی۔ مسلم لیگ نون کی وفاقی حکومت ہی تھی جو خاموشی سے پیچھے بیٹھ کر اپنی انتظامیوں صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر رہی تھی۔ سندھ حکومت کو کرپشن کے الزمات پر رینجرز کے آگے لگا کر دوڑا رہی تھی۔

اب الیکشن کا وقت آ گیا ہے سندھ حکومت کی کارکردگی ہر گز تسلی بخش نہیں ہے۔ الیکشن میں وقت اتنا کم ہے کہ آصف زرداری کے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں کہ وہ ہر جیتنے والے امیدوار کو پارٹی میں لے آئیں۔ الیکشن کے دنوں میں پارٹی کے پاس ایک ایک حلقے میں دو دو تین جیتنے والے امیدوار ہوں گے ٹکٹ ایک کو ملنا ہے۔ جو ٹکٹ سے محروم رہے گا وہ صبر سے گھر بیٹھ کر اپنی سیاست دفن نہیں کرے گا۔ نوازشریف لگاتار سندھ جا رہے ہیں لیکن بڑے نام ان کی پارٹی میں شامل نہیں ہو رہے۔

نوازشریف ابھی سندھ بڑے نام ڈھونڈنے نہیں جا رہے وہ بس لوگوں میں جا رہے ہیں ان سے پوچھ رہے ہیں کہ دس سال ہو گئے سندھ حکومت کی کارکردگی کیا رہی۔ ووٹر کی سمجھ میں بات آ گئی اس نے کارکردگی کا پوچھنا شروع کر لیا تو اپنے آپشن بھی سوچ لے گا۔ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہونی ہیں پرانے سیاستدانوں کی اپنے حلقوں پر گرفت کمزور پڑے گی۔ ہر حلقہ میں نئے سیاسی کھلاڑی شامل ہوں گے۔ نئے کھلاڑی نئی سوچ لائیں گے ووٹر بھی اپنی سوچ بدلے گا۔ ووٹر کیا سوچ رہا یہ سیاست الیکشن کے کھلاڑیوں کو اچھی طرح معلوم ہوتا۔ انہیں ووٹر کا موڈ بدلتا دکھائی دیا تو جیتنے والے امیدواروں کی ڈاریں نون لیگ کی چھتری پر بھی دانا چگنے آجائیں گی نوازشریف اسی لیے سندھ جا رہے ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi