مذہب کے نام پر قتل و غارت


افسوس جن اداروں سے تعلیم کی شمع روشن ہونی تھی انہی اداروں میں وہ شمع مدھم سی پڑ چکی، انہی اداروں میں تعلیم کی بجائے انتہا پسندی اور دہشت گردی اپنی انتہا کو ہے۔ وہی تعلیمی ادارے جن سے فیض یاب ہو کے کوئی ارسطو بنتا اور کوئی ڈاکٹر عبدالسلام اور کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان لیکن اب انہی تعلیمی اداروں سے تعلیم کے طالب دہشت گردی اور انتہا پسندی سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ چند ہی دن پہلے اسی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ایک درد ناک واقعہ پیش آیا جو کسی جنگل میں نہیں بلکہ اسی تعلیمی ادارے میں ہوا۔ایک شخص کو توہین رسالت کا مرتکب ٹھہر ا کے بڑی ہی بے دردی سے مار دیا گیا۔ان لوگوں کو اختیار کس نے دیا کہ وہ مذہب کے نام پر کسی کی جان لیں ۔ہمارا مذہب تو اس قسم کی کوئی تعلیم نہیں دیتا ،پھر اسی مذہب کو بنیاد بنا کر ایک معصوم انسان کی جان کیوں لے لی جاتی ہے ؟

اگر یہاں یہی چلتا رہا تو پھر انسانی جان کی قدرنہ ہونے کے برابر رہ جائے گی کیونکہ ہر دوسرا شخص اپنے ذاتی عناد کا بدلہ مذہب کو بنیاد بنا کر دوسرے شخص سے لے لے گا ، پھر نہ ہی کوئی عدالت اسے پوچھے گی اور نہ ہی کوئی قانون۔ کیونکہ مرنے والا دوبارہ اٹھ کے یہ نہیں بتائے گا کہ توہین کا الزام بے بنیاد تھا ۔ بالکل ایسا ہی ہوا مشال خان کے ساتھ بھی ہوا، ان درندوں نے توہین کا الزام لگا کر اس سے اس کی جان چھین لی۔ پھر ہمارے قانون کے محافظ اس معاملے کی تفتیش کرتے ہیں تو انہیں معلوم پڑتا ہے کہ واقعی مشال خان بے قصور تھا اور اس کی جان صرف ذاتی بدلوں کی صورت میں لے لی گئی۔

ان انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو کیا پرواہ ،نہ وہ مذہب کے پیروکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی سماج کے۔ ان کا جب دل کرتا ہے وہ کسی بھی انسان پہ توہین رسالت کا الزام لگا کر اس کی جان لے لیتے ہیں۔ ایک انسان کی جان گویا پوری انسانیت کی جان لینے کے برابر ہے ۔

اللہ تعالیٰ سورة البقرہ میں ارشاد فرماتا ہے۔’پھر ذرا یاد کرو ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانہ اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا ،پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت کی زندگی میں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔‘

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں واضح بتا دیا کہ لوگو تم آپس میں ایک دوسرے کا خون کرتے نہ پھرنا اور اگر تم نے ایسا کیا تو اس کے سوا تمہارے لیے اور سزا کیا ہو سکتی ہے کہ تمہیں دنیا کی زندگی میں بھی ذلیل کیا جائے اور آخرت کے لیے شدید ترین عذاب تمہارے لیے انتظار کر رہا ہو۔ اگر ان لوگوں کو ہمارا معاشرہ یا ہماری ریاست سزا نہیں دے سکتی تو رب کی پکڑ سے یہ لوگ ہر گز نہیں بچ سکتے۔ انہیں ان کے کیوں کا حساب ہر دو صورت دینا پڑے گا اور انہیں ان کے کیوں کا عذاب بھی بھگتنا پڑے گا۔

اب توہین رسالت کی سزا پر اہل علم کی رائے جانتے ہیں جس کے لیے میں مولانا تہامی بشر علوی کے کالم ’مسئلہ توہین رسالت پر اہل علم کی رائے‘ سے نکات کوڈ کرتا ہوں۔
1۔ اس جرم کی کوئی سزا ’حد‘ کے طور پہ قرآن و سنت میں ہرگز بیان نہیں کی گئی۔

2۔ صحابہ کرام ، فقہا اور محدثین کے نقطہ ہائے نظر اور رجحانات کا جائزہ لینے سے نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ ان سب کے نزدیک اس جرم کے مرتکب کے لیے کوئی ’حد‘ شریعت میں مقرر نہیں کی گئی۔حدیث و فقہ کی کتب میں کتاب الحدود کے تحت اس سزا کا سرے سے کوئی ذکر نہیں، سوائے ابوداﺅد کے کہ ابوداﺅد میں حدود کے ذیل میں تعزیری سزائیں بھی بیان ہوئی ہیں۔ فقہ کی کتب میں متعین طور پر حدود کے ذکر کے اہتمام کے باوجود ’گستاخی‘ کے جرم کو حد کی سزا میں بیان نہیں کیا گیا۔

3۔ جلیل القدر علما میں سے علامہ ابن تیمہ اور ان کے متبعین نے اس جرم کے مرتکب کے لیے ’قتل‘ کی سزا کو ایک شرعی حد کے طور پر بیان کیا ہے۔

4۔ اس جرم کی شریعت میں کوئی ’حد‘ مقرر نہ ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ معاذ اللہ رسول کی اہانت سرے سے کوئی جرم ہی نہیں۔

5۔’شرعی حد‘نہ ہونے کے باوجودجمہور علما ایسے جرم کے مرتکب کو (اگر وہ کسی رعایت کا مستحق نہ ہو تو) تعزیر کے طور پر قتل کرنے کی سزا تجویز کرتے ہیں۔

6۔ جمہور احناف کے ہاں تعزیری سزا قتل سے کم دیے جانے کا رجحان پایا جاتا ہے۔

7۔ تعزیر اور حد میں فرق یہ ہو گا کہ ’حد‘ کی صورت میں سزا اللہ کی مقرر کردہ ہوتی ہے جس کو تبدیل کرنے کا اختیار حکومتی نظم کو نہیں، جبکہ تعزیری سزا میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔

8۔ کوئی مسلمان اہانت رسول کا مرتکب ہو جائے تو وہ مرتد ہو جاتا ہے، ایسی صورت میں اس پر اگرچہ براہ راست اہانت رسول کی سزا جاری نہ بھی ہو تو ارتداد کی سزا کے طور پر قتل کی سزا کا مستحق ہو جائے گا، اس تفصیل کے ساتھ کہ احناف کے ہاں عورت مرتد ہو جائے تو توبہ تک قید رکھی جائے گی اور مرد کو 3 دن کی مہلت دے کر اسے سمجھایا جائے گا اگر توبہ کر لے تو ٹھیک ورنہ قتل کیا جائے گا۔

9۔ علامہ ابن تیمیہ چونکہ بطور حد قتل کے قائل ہیں اس لئے ان کے نزدیک توبہ قابل قبول نہیں ہو گی۔

10۔ سزا کے نفاذ کا اختیار صرف اور صرف عدلیہ کے پاس ہے، ماورائے عدالت قتل ناجائز عمل ہے۔
11۔ عدلیہ قرار واقعی سزا نہ دینے کی صورت میں رب کے حضور مجرم ہو گی ، عدلیہ کے کسی غلط رویہ پر توجہ دلانا، علمی تنقید کرنا یا پرامن طریقے سے احتجاج بھی کر لینا درست ہے۔

22۔ اہانت رسول کے مرتکب کے حالات وغیرہ کسی رعایت کا تقاضاکریں تو مصلحت کے پیش نظر قتل سے کم تر سزا بھی تجویز کی جا سکتی ہے۔

13۔ کسی مسلمان کے روبرو کوئی شخص اہانت کی جسارت پہ اتر آئے اور مسلمان خود پہ کنٹرول کھو کر جذبات سے مغلوب ہو کرغیر ارادی طور پر قتل تک کا اقدام کر ڈالے تو ایسا شخص معذور شمار ہو گا جو عنداللہ مجرم نہ ہونے کے باوجود قانونی سزا کا مستحق ہو گا۔ ارادے سے قتل کرنے والا خدا و قانون کا مجرم ہو گا۔

14۔ قانون کے ہوتے ہوئے ماورائے عدالت قتل پر اکسانا بلاشبہ اک ناجائز عمل ہے جس کی شریعت میں ہر گز گنجائش نہیں۔

15۔ مسلمان سے اصلا ًمطلوب یہی ہے کہ وہ اپنے جذبات کو شریعت کے تابع رکھے نہ کہ جذبات کے تحت جو مرضی اقدام کر ڈالے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).