ایک اور مشال کے قتل کا انتظار


اگر آپ کے قانون ساز ادارے کا ایک معزز رکن ایوان کے فلور پر کہے کہ ’امریکا اور بھارت، مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں اس لئے ان دشمنوں پر پاکستان ایٹم بم گرا کر مسلمانوں کا حق ادا کرے‘’ تو آپ کے پاس ایک ہی آپشن باقی رہ جاتا ہے کہ آپ اپنا منہ اور ماتھا پیٹیں۔

اور آپ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ اس طرح کی باتیں اکثر اوقات آپ کو قومی اسمبلی میں سننے کو ملتی ہیں!

ہمارے معاشرے کی پستی اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ مردان یونیورسٹی میں انتہائی بربریت اور وحشانیت کے ساتھ مارے گئے مشال کی موت پر جب وزیراعظم نے مذمت کی تو یہ تاثر دیا گیا کہ بڑی بات ہوگئی۔ اگر امیر جماعت اسلامی سراج الحق مشال کی موت کی مذمت کردیں تو اور بڑی بات ہوجائے گی۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمان اور دیگر مذہبی قائدین کی جانب سے مذمتی پریس ریلیز یا آئی ایس پی آر کی جانب سے کوئی ٹویٹ آجائے تو ا سے ایک بہت بڑے اقدام کے طور پر تصور کیا جائے گا۔

دوسری محرومی اور پستی یہ بھی ہے کہ ابھی تک مذہبی شدت پسندی کے جو واقعات ہو رہے تھے ان کا تعلق مدارس سے جوڑا جاتا تھا لیکن اب جب یہ بدصورت حقیقت آپ کی یونیورسٹیز کے کاریڈورز میں پہنچ چکی ہے۔ تو آپ اسے کیا کہیں گے؟

آپ دنیا کو کیا بتائیں گے کہ آپ کی یونیورسٹیز میں مذہبی جنونی نہیں ہیں؟

ہم نے جس نظام درسی کی بنیاد رکھی تھی اس کی عمارت مشال جیسے طلبا کے خون سے تعمیر ہورہی ہے۔ آپ کے معاشرے کے پروفیسرز بھی بے گناہ منکرین کو واصل جہنم کرنے کے شوق سے سرشار ہوں تو مردان یونیورسٹی کے طلبا کا کیا قصور ؟

ہر آدمی ایک قاتل بنا پھرتا ہے صرف اس میں سے قاتل کو دریافت کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اس دن جب مشال کو اللہ اکبر کے نعرے لگا کر مرحلہ وار قتل کیا جا رہا تھا تو اس وقت یونیورسٹی کا عملہ کہاں تھا؟ اساتذہ کہاں تھے؟ کیا ان میں ایک بھی ایسا نہیں تھا جس کی بات سنی جاتی؟ یا سارے اس لشکر کے ساتھ تھے جو مشال کو قتل کررہا تھا؟

اب جب مشال مارا جا چکا تو کوئی رسول پاکؐ کی حیات مبارکہ کے قصے بیان کر رہا ہے۔ کوئی قرآن کی آیات بتا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ مردان میں جو کچھ ہوا اس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ کہیں سے آوازیں آرہی ہیں کہ’ آؤ ضیا کی قبر پر چلیں اور پھولوں کی چادر چڑھائیں، وہ ایک بار پھر کامیاب ہوا‘۔

کیا سر میں مٹی ڈال کر رونے سے وہ شدت پسندی جو تشدد پسندی میں تبدیل ہوگئی ہے وہ کم یا ختم ہوجائے گی؟

اس کا جواب ہے نہیں! کیونکہ ہمارے پالیسی ساز اس شدت پسندی کو ختم ہی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ اس کو بڑھانا ضرور چاہتے ہیں کیوں کہ شدت پسندی انہیں وارا کھاتی ہے تاکہ جب بھی کوئی آواز اٹھے تو اسے ایسا ہی نام دیکر خاموش کرا دیا جائے۔

جب ایک یہودی کی جانب سے ناروے میں گستاخانہ خاکے شائع کئے گئے تھے تب سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اکیس ستمبر دوہزار بارہ کو یوم عشق رسولؐ منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس دن پاکستان کے بڑے شہروں میں لشکروں نے ان لوگوں کی اربوں روپے کی املاک نذرآتش کردیں جو خود رسول پاکؐ پر ایمان رکھتے تھے۔ بیس لوگ مارے گئے اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے۔ اسلام آباد میں ایک ایسا بھی ٹیکسی ڈرائیور تھا جسے جلانے کیلئے کچھ بھی نہ ملا تو اس نے شدت جذبہ ایمانی سے مغلوب ہوکر اپنے بچوں کے روزگار کا واحد ذریعہ وہ ٹیکسی بھی جلادی جو اس کے گھر کے سامنے کھڑی تھی!

کہاں ناروے کہاں پاکستان…. کہاں یہودی کہاں مسلمان!

زمانوں سے یہ پریکٹس چلی آرہی ہے کہ جب دلیل کا جواب دلیل نہ ہو تو قرآن اور حدیث کا حوالہ دیکر سامنے والے کو چپ کرا دیں۔ اس طرح کے مظاہر نہ صرف ہماری عمومی زندگی میں بلکہ ہمارے منتخب اداروں میں بھی عام ہیں۔ کیپٹن صفدر صاحب کی مثال ہی لے لیجئے۔ قومی اسمبلی میں ان کے ایمان افروز خطاب کے وقت ان کے سامنے بیٹھا کوئی بھی شخص انہیں یہ کہنے کی بھی جسارت نہیں کرسکتا کہ اب بہت ہوگیا دوسروں کو بھی بولنے دیں۔ ان کی تقاریر سے متاثر ہوکر ایک خاتون رکن نے انہیں پیش امام بنانے کی تجویز بھی دی۔ وہ طنز نہیں کررہی تھیں بلکہ کیپٹن صاحب کے علم سے متاثر تھیں۔ اسی طرح جمشید دستی کو ہی کوئی چپ کراکے دکھادے۔

مشال پھر بھی سلمان تاثیر سے زیادہ خوش قسمت ٹھہرا کہ اس کے قتل کے فوری بعد قومی اسمبلی نے اس کے درجات کی بلندی کیلئے دعا کردی۔ تاثیر کے حصے میں تو ایوان بالا کی دعائے مغفرت بھی نہیں آئی!

یہ تو بھلا ہو جنرل راحیل شریف کی سپہ سالاری کا ورنہ دوسرے شریف تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرانے کی ہمت ہی نہیں رکھتے تھے۔ چونکہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے کے تحت سلمان تاثیر کے قتل کو جرم قرار دے چکی لیکن اس کے قاتل کو کوئی ہیرو کہے تو توہین عدالت نہیں ہوتی۔ ’آپ سپریم کورٹ سے زیادہ جو مقدس ٹھہرے‘۔

مشال خان قتل ہوگیا۔ آپ اگر صاحب اولاد ہیں اور آپ کا ایک نوجوان بیٹا بھی ہے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ جب لکڑی کے پھٹوں سے مار مار کر اس کی ہڈیاں اور پسلیاں توڑدی گئی ہوں۔ اس کاستر سلامت نہ ہو۔ اس کا چہرہ مسخ ہوچکا ہو۔اس کی میت کو غسل دینے والے کیلئے یہ پریشانی ہو کہ وہ جگہ جگہ سے خون رستے زخموں اور ٹوٹی ہڈیوں کے جسد کو کس طرح غسل دے۔

ماں اپنے بیٹے کے ہاتھوں کو چومے تو اس کی انگلیاں بھی ٹوٹی ہوئی ہوں۔ جب اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے پڑوس کا مولوی انکار کردے اور رات کو مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے خوشی کا اظہار کرے تو آپ کیا کریں گے؟

اس عالم میں کوئی بھی صاحب فہم آدمی فہم کھودے گا اور اسے لگے گا کہ وہ سب کچھ جلادے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود اس کا والد یہ کہے کہ’’ میرا مشال تو مارا گیا دوسروں کو بچائیں‘۔

اس وقت آپ سے بڑا بلند کردار کوئی نہیں ہوتا۔

زخم پرایا ہے تو کیا ہوا، آپ اسے تھوڑی دیر کیلئے اپنا ہی سمجھ کر تصور کرلیں کہ اس لمحے زندگی کیسی ہوتی ہے !

اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان آپ کو ایسا ہی چاہئے جس میں ریاست ہاتھ کھڑے کردے اور لشکر فیصلہ کرے۔ جیسے مشال کے معاملے میں۔یا ماضی میں اس طرح کے دیگر افراد کے مارے جانے کے بارے میں!

جب آپ اپنے منصب کو اپنے ذاتی نظریات کے پرچار کا ذریعہ بنالیں تو ادارے ادارے نہیں دربار بن جاتے ہیں اور دربار میں ایک شخص کی بات چلتی ہے۔ وہاں آئین اور قانون و ہی ہوتا ہے جو دربار میں مسند پر بیٹھا شخص بولتا ہے۔ایک آئین رکھنے والی ریاست میں یہ سب کچھ ہورہا ہو اور اس کا بالا ادارہ خاموش رہے۔ میڈیا دربار کے پھٹے سکرین پر چیخ چیخ کر آن ایئر کرے تو لوگوں کو تو شہ ملے گی کہ وہ لشکر کی صورت نکلیں اور کسی کو بھی مار دیں۔

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ضیا اسٹیبلشمنٹ نے جس شدت پسندی کی سرپرستی کرتے ہوئے اسے تشدد پسندی میں تبدیل کیا تھا اسے جلدی تبدیل کرنا تو ممکن نہیں لیکن اسے ہلکا کیا جاسکتا ہے۔

ریاست اگر لشکروں کے قہر سے لوگوں کو بچانا چاہتی ہے تو اسے ایک سرخ لکیر کھینچنا ہوگی۔ اسے نیوٹرل ہونا پڑے گا۔ اسے واضح پیغام دینا پڑے گا کہ آئین کی حدود سے باہر نکلنا جرم ہے اور کوئی مجرم بخشا نہیں جائے گا۔ اسے اس روایت کو تقویت دینی پڑے گی کہ سامنے والے کی بات سنی جائے۔ اسے برداشت کے عمل کو فروغ دینا پڑے گا۔ پاکستان کے ریاستی بیانیے کا از سر نو جائزہ لینا پڑے گا اور اس میں تمام فریقین کو شامل کرکے ایک نیا بیانیہ تشکیل دینا پڑے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو آپ چاہے کچھ بھی کرلیں آپ ان لشکروں کو نہیں روک سکیں گے جو مشال جیسے طالب علموں اور عام آدمیوں کو قتل کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).