مذھبی عسکریت پسندی کے جہادی بیانیے کی تشکیل میں مدارس کا کردار (1)


 آج مذھبی عسکریت پسندی کے لا وارث بچے کو کوئی اپنے نام سے منسوب کرنے کو تیار نہیں، لیکن ایک ایسا بھی وقت گزرا ہے کہ جب اسے گود لینے کے لیے اہل مدارس میں مسابقت برپا تھی۔

یہ 80 اور 90 کی دہائی کی بات ہے جب صدر ضیاء الحق کے زیر سرپرستی جہادی بیانیہ قوم کا نصب العین بنایا جا رہا تھا۔ مساجد اور مدارس میں جہادی پروگرام منعقد کیے جاتے تھے، جہادی مقررین اپنی شعلہ بار تقاریر سے نوجوان طلبہ کے جذبات کو برانگیختہ کیا کرتے تھے، طلبہ کو محاذ پر جانے کی بجائے مدرسے میں آرام سے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنا خلافِ غیرت لگنے لگتا تھا، جہادیوں کے شانوں تک چھوڑے ہوئے لمبے بال، گھنی داڑھیاں، کسرتی جسم، فولادی ہاتھ اور ان ہاتھوں میں اسلحہ، طلبہ کے لیے ہیروازم جیسی کشش رکھتے تھے، جہادی تنظیموں کے چندے کی مہم ایسی شان سے چلائی جاتی تھی جیسے عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے چلائی تھی، لیاقت باغ راولپنڈی میں جہادی کرتبوں کا مظاہرہ ہوتا تھا، جہادی کمانڈر ایسے پروٹوکول سے جلوس نکالتے تھے کہ محسوس ہوتا کہ قرونِ اولٰی کے مجاہدین واپس زندہ ہو کر آ گئے ہیں، جہادی تربیتی کیمپ لگائے جاتے تھے جن میں جذبہ جہاد سے سرشار نوجوانوں کی تربیت کی جاتی اور پھر محاذ پر بھیج دیا جاتا تھا۔ مدارس کی چھٹیوں میں طلبہ کو جہادی کیمپوں میں جانے کی ترغیب دی کی جاتی تھی، دارالعلوم کراچی سے لے کر خیر المدارس ملتان تک سب مدارس کے طلبہ جہادی کیمپوں میں آتے تھے۔ شہید ہوتے مجاہدین کی سمعی Audio کیسٹیں سنائی جاتیں جن میں وہ شہادت سے پہلے آخری گولیاں چلاتے ہوئے چیخ چیخ کر کہ رہے ہوتے کہ خدا کی قسم انہیں جنت کی خوشبو آ رہی ہے۔

جمعہ و عیدین کی نمازوں میں افغانستان، فلسطین، کشمیر اور چیچنیا میں برسرپیکار مجاہدین کے غلبہ و نصرت کی دعائیں مانگی جاتی تھیں (دعاؤں کا تسلسل اب بھی جاری ہے)، جہادی نغمے اور ترانے جگہ جگہ اونچی آواز میں بجائے جاتے تھے اور مولوی حضرات ‘سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد’ کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ بیچ بیچ میں کسی عالم کا اختلاف بھی سننے کو ملتا تھا، لیکن اسے گمراہی اور بزدلی کے طعنے دے کر خاموش کرا دیا جاتا، یا نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔

یہیں سے یہ بیانیہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہنچا۔ مولانا مودودی کا لٹریچر پہلے سے وہاں موجود تھا، حاکمیتِ اسلام کا نعرہ پورے آہنگ سے بلند کیا گیا تھا۔ ریاست اور علما کو کوئی نیا لٹریچر تخلیق کرنے کی زحمت بھی کرنا نہیں پڑی تھی۔ جماعت اسلامی کے نظریات کو میدان عمل میسر آ گیا۔ انہوں نے بھی دامے درمے سخنے اپنے نوجوانوں کے خون کے نذرانے پیش کرنے کے لیے اپنی الگ عسکری تنظیم بنا لی۔

اس دور میں بھی البتہ، ہر فرقے اور ہر تنظیم نے دینی مفاد کے اشتراک کے باوجود مسلکی غیرت پر سمجھوتہ کرنا گوارا نہ کیا۔ جہاد جیسی نازک سرگرمی کے لیے بھی کسی ایک لیڈر شپ کی ماتحتی کی ‘ہتک’ کا تحمل نہ کیا جا سکا، اپنے اپنے مسلک کے جہادی کمانڈروں کی قیادت میں ہی جہاد کرنے کو ترجیح دی گئی۔ مسلک سے وفاداری کی اس سے بہترین مثال اور کیا ہوگی کہ جس دین کی خاطر شہادت جیسی کٹھن منزل قبول کر لی گئی، اس کے لیے مسلکی تفریق سے بلند ہونا گوارا نہ کیا گیا۔ یوں مجاہدین کے مختلف دھڑے ایک دوسرے کے رقیب بھی بنے رہتے، ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈا بھی کرتے رہتے، ایک دوسرے کے کمانڈر بھی توڑتے رہتے، زیادہ سے زیادہ مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچتے رہتے اور خدا کی راہ میں اپنے اپنے نوجوانوں کی جانیں بھی باقاعدگی سے پیش کرتے رہتے تھے۔

یہ دور 90 کی دہائی کے آخر تک زندہ تھا، تا آں کہ جنرل مشرف نے اُسی امریکہ کے کہنے پر اس پر روک لگا دی جس امریکہ کے کہنے پر جنرل ضیا نے اس کی آبیاری کی تھی۔ جنرل ضیا نے صرف کھاد اور پانی مہیا کیا تھا، بیج اور پودے مدارس کے فکر و نصاب میں پہلے سے موجود تھے۔

جب سے ریاست نے اس بیانیے کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچا ہے، مولوی حضرات نے اس سے ایسے لاتعلقی کا اعلان کر رکھا ہے جیسے مفتی حنیف قریشی نے ایفی ڈیوٹ لکھ کر ممتاز قادری سے برات کا اعلان کر دیا تھا، حالانکہ اسی کی تقریر سن کر ہی ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کے قتل کا انتہائی قدم اٹھایا تھا، قادری کی گرفتاری کے بعد، اس کی رہائی کی مہم بھی مفتی موصوف نے چلائی تھی، اور پھر اس کی پھانسی کے بعد اس کے دفنانے کے وقت بھی وہ آگے آگے تھے۔ یہی کچھ اس جہادی بیانیے کے ساتھ اب مدارس کے علما حضرات فرما رہے ہیں۔

ان حالات سے نا واقف لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شدت پسندی کا یہ عفریت غربت، جہالت اور ناانصافی سے نکلا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ جس وقت یہ بیانیہ کچے اذہان میں انڈیلا جاتا ہے اس وقت ان نوجوانوں کی غالب اکثریت کو سماجی ناانصافی اور عدم مساوات جیسی باتوں کا مکمل ادراک بھی نہیں ہوتا، وہ ابھی زندگی کے عملی میدان میں اترے ہی نہیں ہوتے کہ ان مسائل کا پورا احساس انہیں ہو، وہ تو یہ سن کر جان دینے اور جانیں لینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں کہ ان کے دین نے مسلمانوں پر ایک عالمی خلافت کا قیام فرض قرار دیا ہے، اگروہ اس کی جد و جہد نہیں کریں گے تو گناہ گار ہوں گے، خدا کے ہاں جواب دہ ہوں گے، انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ جس نے جہاد نہ کیا اور نہ اپنے آپ کو جہاد کے لیے تیار کیا، وہ منافقت کے درجے پر مرے گا۔ ان کا بیانیہ ایک شاعر کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے:

نماز اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا، زکوٰۃ اچھی

مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا

نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ بطحاؐ کی حرمت پر

خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا

جہادی بیانیہ اگر غربت، جہالت اور ناانصافی کی وجہ سے پروان چڑھا ہوتا تو ان عسکریت پسندوں میں زیادہ بڑا طبقہ ملک کے غریبوں اور جاہلوں کا ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کا غریب اور پسا ہوا طبقہ تمام تر نا انصافیوں کے باوجود اپنے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے میں لگا ہوا ہے۔ کبھی انفرادی طور پر ان کے ہاں بھی جارحیت کے واقعات ہو جاتے ہیں، لیکن بحیثیت طبقہ یہ لوگ بے بسی کے ہاتھوں پر امن زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جب کہ جہادی تحریکوں کے افراد کسی نہ کسی مدرسے، یا فکری تنظیم سے وابستگی رکھتے ہیں۔ ایسا بھی ہے کہ جہادی تحریکوں میں کچھ لوگ ذاتی رنجش یا خفگیوں کے باعث شامل ہوتے ہیں لیکن ایسا لوگ بہت کم ہیں۔ ان تحریکوں کی اصل جان اور اصل نمائندے وہی لوگ ہیں جو فکری پس منطر رکھتے ہیں۔ اور اسی بنا پر جہاد کی مشکل زندگی اور اختیاری موت کو خوشی خوشی گلے لگا لیتے ہیں۔

اس بیانیے کے متاثر نوجوانوں کا جائزہ لے کر دیکھیے۔ ان میں مدارس کے غریب خاندانوں کے بچے ہی نہیں ہوتے، خوشحال گھرانوں کے، یونیورسٹیوں کے بلکہ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک میں پلنے بڑھنے والے نوجوان سب شامل ہیں۔ یہ غلبہ اسلام کا رومانوی تخیل ہے جو دینی فریضہ کے طور پر جب سامنے آتا ہے تو اس میں اتنی اپیل ہوتی ہے کہ ان کا ایمان انہیں مجبور کر دیتا ہے کہ خدا کے اس سیاسی ایجنڈے کے لیے وہ سب کچھ کر گزریں جو ممکن ہو سکتا ہے۔

آپ کسی بھی جہادی تنظیم کا لڑیچر دیکھ لیجیے، ان کا استدلال ملاحظہ کیجیے کہ آیا وہ سماجی ناانصافی اور کفار کی بربریت کو اپنا بنیادی استدلال بناتے ہیں یا اس سارے عمل کو دینی فریضہ قرار دے کر نوجوانوں کو اس طرف بلاتے ہیں۔ غیر مسلم قوتوں کا مسلمانوں پر ظلم و ستم ایک اضافی چیز ہے جس نے ان کے نزدیک معاملہ کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اگر نہ بھی ہوتا تو بھی مسلمانوں پر فرض ہے کہ ایک عالمی خلافت کے قیام اور غیر مسلموں کو محکوم بنانے کے لیے جہاد کا معرکہ برپا کریں۔

مدارس میں یہ جہادی بیانیہ پڑھایا، سکھایا جاتا ہے، اس حقیقت سے انکار ایسا ہی ہے جیسے نصف النہار میں سورج کی موجودگی کا انکار کر دیا جائے۔ رزم و بزم میں یہ معرکہ آج بھی ان کے نصاب و فکر کی بدولت زندہ ہے۔ طالبان ہوں یا داعش، سب یہیں سے پھوٹ رہے ہیں۔ لیکن اہل مدارس نے چونکہ بڑی ہمت سے اس حقیقت کو جھٹلانے کی روش اختیار کی ہے اس لیے ہمیں اس کے شواہد، انہیں کے لٹریچر اور نصاب سے پیش کرنا پڑ رہے ہیں:

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).