مشال خان اور چالیس چراغ عشق کے


مشال خان نے عبدالولی خان یو نیورسٹی کے کینٹین میں بیٹھ کر چنددن پہلے ’مشال ریڈیو‘ سے لائیو گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت ترک قلمکار الف شفق کا ناول thr forty rules of love ( چالیس چراغ عشق کے ) میرے ہاتھ میں ہے۔ کسی سامع نے سوال کیا کہ لوگوں کو جب ایک بار ملک سے باہر جانے کا موقع ملتا ہے تو واپس نہیں لوٹتے، آپ واپس پاکستان کیوں آئے؟ تو مشال خان نے جواب دیا میں انسانیت پر یقین رکھتاہوں، سلگتی بلکتی انسانیت کی خدمت میری آرزو ہے اور میرے خیال میں اس وقت پشتون دنیا کی سب سے زیادہ رلائی اور ستائی گئی قوم ہے سو میں یہ زبان بولنے والے انسانوں کے پاس واپس آیا ہوں۔

نفرت، تعصب، تشدد، جہالت اور افتادگی سے پیار کرنے والے لوگوں کی تاریک بستی میں مشال خان شاید عشق کا کوئی چراغ روشن کرنے آیے تھے، انہیں شاید جبر کے سامنے انسان کی حریت کی حرمت کی پاسداری کرنے کی سوجھی تھی، ہو سکتا ہے مشال خان کو یہ غلط فہمی ہوئی ہو کہ ہر سو چھائی ہوئی ہیبت ناک تاریکی کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کوئی مشال اور مشعل بردار پیدا ہی نہیں ہوا ہے انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہاں ظلمت کے پھیلتے ہوئے سائے روشنی کی قحط کی وجہ سے نہیں بلکہ تاریکی کے محافظ باد صرصر کی سرکش اور طاقتور لہروں کی باعث ہیں۔

مشال خان خود ہی غلطی پر تھے جہاں کے لوگ موم بتی سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں وہ وہاں مشعل روشن کرنا چاہتے تھے، موم بتی تاریکی کا مقابلہ کرتی کرتی پگھل جاتی ہے اور مشال ظلمتوں کا سینہ چاک کرتے کرتے بجھ گئے۔ مجھے نہیں پتا اس میں انہونی کو نسی ہے کہ خلق خدا نے ایک ہفتے سے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ یہ بات آپ کسی بچے سے ہی پوچھ لیجیے کہ ظلم اور ظلمت کی تیز آندھیوں میں جلنے والے مشال کا مقدر کیا ہوتا ہے۔ بچے سے یاد آیا کہ بچوں کو تاریکی سے بہت ڈر لگتاہے افلاطون نے مگر کہا تھا کہ مجھے اس پر کوئی حیرت نہیں ہوتی مگر بڑے جب روشنی سے ڈرنے لگ جاتے ہوں تو یہ واقعی اچنبھے کی بات ہے، سمجھ نہ آنے والی بات۔ مگر افلاطون بھی پتا نہیں کیسے افلاطون تھے اتنی سادہ سی بات کو بھی وہ سمجھ نہیں سکے اور پھر بھی کہلواتے ہیں افلاطون۔ رات کی تتلی اپنی معنویت سے محروم ہوجاتی ہے اور دن کا جگنو اپنا شناخت کھوجاتاہے اب بھلا چمگاڈر سے یہ مطالبہ کیسے کیاجا سکتا ہے کہ وہ سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بلند پروازی کی داد وصول کرے، بیچارے کی خاک و خمیرہی ایسے ہیں، کبھی روشنی کا جلوہ دیکھ سکتا تبھی بات بنتی۔ زمانوں کی زنگ نے جن کی ذہن کی طرف روشنی کی معمولی سے معمولی کرن کی پھلانگنے کی ایک ایک روزن بند کررکھی ہے آپ ان کے سامنے یکدم پوری کی پوری مشعل لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں تو قصور تو آپ کا ہے صاحب!

مجھے نہیں پتا کہ الف شفق کے ’عشق کے چالیس قوانین‘ سے مشال خان نے کیا کچھ سیکھا اور سمجھا ہوگا مگر مشال کی موت نے نفرت کی ان دیرینہ قوانین کو نظری مفروضوں سے بڑھ کر تجربہ شدہ سائنسی ضابطوں کی شکل ضرور دی ہے کہ انالحق ہی سب سے بڑا باطل ہوتا ہے۔ روشنی کی کرن پر ہی تاریکی کا الزام عائد کر کے اسے بجھا دیا جاتا ہے۔ لیکن عشق اور نفرت کے ان قوانین کے آس پاس ایک چیز تاریخ بھی ہوتی ہے۔ پشتونوں کی تاریخ یہ ہے کہ ان کی نزدیک کی نظر جتنی کمزور ہے دور کی بینائی اتنی ہی تیز ہے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے موجود رہبر اور راہزن کے درمیان پہچان وہ کبھی قائم نہیں کرسکے۔ زمانے کی فاصلوں کے ساتھ ہی انہیں کچھ کچھ اندازہ ہونے لگتا ہے کہ انہوں نے کیا کیا تھا یا ان کے ساتھ کیا کیا گیا تھا۔ پشتون فوک لور ادب و تاریخ کے جتنے بھی ہیروز ہیں وہ سب ’بابا‘ کہلاتے ہیں اور یہ سارے ’بابا‘ اپنے اپنے زمانے کے خان اور ملا کے ہاتھوں ستم اور ذلت اٹھائے ہوئے ولن اور راندہ ہوتے تھے۔ مشال خان ان باباؤں کی فہرست میں اک نیا اضافہ ہے۔ باباؤں کی قطار میں سب سے نوجوان اور نوخیز بابا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).