مشال یونیورسٹی، رحم دل شہزادے کا مجسمہ اور بے حس قوم


ناصر کاظمی نے کہا تھا :

شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

جانے کتنے روز بیت چکے ہیں اور جانے کتنے ہی روز مزید بیتتے چلے جائیں گے لیکن وحشت و بربریت کے خون آلود مناظر میں اُبھرتا، ہماری نام نہاد اخلاقی اقدار کو اپنے بدمست پیروں تلے روندتا، ہمارا مذہبی جنون اب تا عمر ہمیں اپنی ہی نظروں میں رسوا کر دینے کو کافی رہے گا۔ خوبصورت تصویروں میں سراپا یاد بن کر مجسم ہوجانے والے مشال کا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھتے ہوئے مجھے آسکر وائلڈ کی کہانی کا وہ رحم دل شہزادہ یاد آتا ہے جس کا سنگی مجسمہ دیکھنے کی حد تک ایک خوش باش شہزادے کا ہے لیکن جس کا دل غموں سے لبریز ہو کر بار بار اس کی آنکھوں سے چھلک اُٹھتا ہے۔ جو اپنے ننھے ساتھی کو اپنا غم بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ:

’’جب میں زندہ تھا اور ایک انسان کا دل اپنے سینے میں رکھتا تھا تب مجھے پتہ ہی نہ تھا کہ آنسو کیا ہوتے ہیں ،غم کیا بلا ہے، مجھے سب لوگوں نے مسرت کا خوش نصیب شہزادہ ہی سمجھا۔۔ میرے مرنے کے بعد لوگوں نے میرے مجسمے کو بلندی پر نصب کر ڈالا، اب مجھے زندگی کی تمام مکروہ اور بدنما صورتیں نطر آتی ہیں۔۔۔ اس کے باوجود کہ میرا دل سیسے کا ہے، میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ہیں۔‘‘

اپنے دکھوں کی تلافی کرنے کو وہ اپنی ریاست پر اپنا سب کچھ ،یہاں تک کہ اپنی قیمتی آنکھیں بھی وار دیتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اپنے ننھے ساتھی کی موت کا صدمہ بھی اسے اندر ہی اندر شکستہ کیے جاتا ہے۔

’’تب شہر کے کونسلر فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ بدصورت مجسمہ جو شہر کے لیے ایک کلنک کا ٹیکہ ہے اسے بھٹی میں ڈال دیا جائے۔۔ سیسے کا دل جب بھٹی میں نہ پگھلا تب فاؤنڈری والوں نے دھات کا یہ حقیر ٹکڑا کوڑے پر پھینک دیا،جہاں پہلے ہی ایک مردہ پرندہ موجود تھا۔ تب خدا نے اپنے ایک فرشتے کو حکم دیا کہ اس شہر میں جو دو سب سے قیمتی چیزیں ہیں وہ لے آؤ ، فرشتہ کوڑے کے ڈھیر سے دھات کا دل اور مردہ پرندہ اُٹھا لایا۔ خدا نے کہا تمہارا انتخاب بالکل درست ہے، یہ پرندہ جنت کے باغوں میں ہمیشہ رہے گا اور یہ مسرتوں کا شہزادہ شہرِ زریں میں ہمیشہ ہماری حمدو ثنا کرتا رہے گا۔‘‘
میں جانتی ہوں دل دکھتا ہے جب مسرتوں کے شہزادے مشال پر بہتان تراشی و سنگ باری کے روح فرسا مناظر کاتذکرہ کیا جائے لیکن افسوس کہ اس بات کو بھی کیونکر فراموش کیا جائے کہ مشال وہ کوئی پہلا شخص تو نہ تھا جسے محض ذاتی رنجش کی بنا پر مذہبی جنون کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ہمارے سماج کے مردہ ضمیر کو چوٹ لگانے والا یہ کوئی پہلا سانحہ تو نہ تھا کہ جب ہماری نام نہاد غیرت نے پُرجوش ہو کر حق و باطل کی تمیز بھلا دی۔ عدل کے بلند و بالا ایوانوں میں براجمان شاہوں سے انصاف کی آس لگائے بوڑھے باپ کی سماعتیں اور بصارتیں کوئی پہلی بار تو انتظار کے بوجھ سے بوجھل نہ ہوئی تھیں، دکھ تو اس بات کا ہے کہ جب سچ اپنی پوری آب و تاب سے طلوع ہوا تو ہماری منافقتوں نے بے گناہی کے اس معصوم مرقد کو غم کی مجسم شکل میں ڈھال کر عقیدتوں کے ہار ڈالے اور اپنی سماجی و مذہبی عدم برداشت کے روایتی نوحے پیٹے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ بات یہاں ختم ہو جاتی۔ حاکمِ وقت بھی اس بات کا پیماں کرتے کہ وطنِ عزیز میں برپا ہونے والی یہ بس آخری قیامت کی گھڑی تھی، لیکن افسوس کہ تاریخ کے پنوں پہ رقم ہوتی تلخ عبارت کا بیاں اس خوش گمانی سے یکسر مختلف ہے۔ ریاستی اداروں کی غفلت اور عدل میں ہونے والی تاخیر اس بات کا برملا اعلان کرتی ہے کہ با ت ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہمارے بے حس اجتماعی ضمیر پہ نفرتوں کے ان گنت چابک سے ابھرتے زخم اب ندامتوں کے ناسور بن کر رِسنے لگے ہیں، شہادت و حق کی گواہی دینے والی کچلی ہوئی سرد انگلیاں سوال اُٹھاتی ہیں کہ یکے بعد دیگرے مذہبی جنون کے ہاتھوں سرزد ہونے والے یہ سانحات ہمیں آخر کب تک جھیلنا ہوں گے؟ بصیرتوں کی آڑ میں نفرتوں کی تدریس و ترسیل کا یہ وحشت ناک سلسلہ کیا کبھی کہیں جا کر رکنے کا نام بھی لے گا؟ درسگاہوں کے منتخب منتظمین حق کی زباں بندی کا کوئی نیا راستہ آخرکب تک اختراع نہ کر پائیں گے؟ اور یہ بھی کہ تاخیر سے کیے گئے عدل کے فیصلے کیا مشال جیسے شہزادۂ مسرت کے ساتھ ہونے والے بد ترین ظلم کا ازالہ کبھی کر پائیں گے؟ شاید کبھی نہیں، اُن شکستہ قیمتی آبگینوں کی طرح کہ جن کے نقصان کی تلافی ناممکنات میں سے ہو اور جب محبت بھرے ہاتھ ان کرچیوں کو سمیٹنے بیٹھیں تو گھاؤ دل سے روح تک اترتے چلے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).