بلائنڈ کیس


بے شک زندگی پانی کی طرح اپنی سطح ہمواررنہیں رکھتی لیکن یہ اتنی ناہموار بھی ہوسکتی ہے کہ چند قدم چلنا دشوار ہو جائے اس کا اندازہ مجھے دو دسمبر کی رات کو ہوا ۔ علی الصبح میں دفتری امور کی انجام دہی کے لیے گھر سے نکلا۔عین اسی وقت دو ڈاکو جو شاید میرے گھر سے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے، دیواریں پھلانگ کر گھر میں داخل ہوگئے۔ میری اہلیہ اور میرے بچوں کو گن پوائنٹ پر یرغمال بنا کر ایک کمرے تک محدود کردیا۔ڈاکووں نے زیورات ، موبائل فون اور لیپ ٹاپ سمیت گھر میں ایسی کوئی چیز نہ چھوڑی جو ان کے نزدیک سو روپے میں بھی بک سکتی تھی ۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ میرے بیوی بچوں کو یرغمال بنا کر گراونڈ فلور پر رہائش پذیر میری پھوپھی زاد بہن کادروازہ کھلوایا اوراس محنت کش خاتون کی بھی عمر بھر کی کمائی لوٹ لی۔اس واقعے کو دو ہفتے سے زائد ہوگئے لیکن اب تک ہمارے گھر پر خوف کا راج ہے۔ایک وحشت ہے جو گھر کے کونے کونے سے دیدے پھاڑے ہمیں گھور رہی ہے۔

ہم سب معمول کی زندگی کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں، جو ہوا اسے بھیانک خواب سمجھ کر بھولنا چاہتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ ہمارے اعصاب خود ہمارے کنٹرول میں نہیں۔عزیز و اقارب ہمارے افسردہ چہروں کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنی جمع پونجی لٹ جانے کا دکھ ہے لیکن یہ پورا سچ نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ اللہ کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں۔ وہ ہمارے نقصانات کا بہتر متبادل عطا کرے گا (ان شااللہ ) لیکن میرے دکھ کچھ اور طرح کے بھی ہیں۔ پہلا دکھ تو یہ کہ میرا اندیشہ یقین میں بدل گیا ہے کہ اگر آپ پاکستان کے عام شہری ہیں تو آپ کی حیثیت کیڑے مکوڑے سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر آپ اپنی جان ،مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا انتظام خود کر سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ ریاست اور اس کے اداروں سے تحفظ کی توقع رکھنا فضول ہے۔ عام آدمی کے ساتھ چاہے جتنا مرضی ظلم ہو جائے انصاف کی امید نہ رکھے، یہ جنس مریخ پر تو شاید دستیاب ہو لیکن پاکستان میں یہ کم ہی ملتی ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے تو ڈاکووں کے جانے کے بعد بہتر ہوگا کہ چپ چاپ بچا کھچا سامان سمیٹ لیں، بس یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتے رہیں کہ مال تو آنی جانی چیز ہے جان بچ گئی۔ کیونکہ اول تو ایف آئی آر درج نہیں ہوگی اور اگر ہو بھی گئی تو اس آس میں خود کو ہلکان نہ کریں کہ آپ کا لوٹا ہوا مال واپس مل جائے گا ۔

میرا ایک دکھ یہ بھی ہے کہ جب سے یہ واردات ہوئی ہے میری اہلیہ جو خود ایک ورکنگ وومن ہے، کی پوری نفسیات ہی بدل گئی ہے ۔زندگی کے ہر محاذ پر بہادری سے لڑنے والی یہ عورت اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگی ہے۔ اس کی خود اعتمادی کرچی کرچی ہو گئی ہے، یہ کس قدر اذیت ناک بات ہے کہ وہ عورت جو اپنے گھر میں الٹی پڑی چپل کو جب تک سیدھی نہ کر لے اسے چین نہیں آتا تھا لیکن اس کے سامنے اس کا پورا گھر الٹ پلٹ کر رکھ دیا گیا مگر وہ یہ سب چپ چاپ دیکھتی رہی ،مدد کرنے کی دعوے دار پولیس کا حال یہ ہے کہ ملزمان کا سراغ لگانا تو دور کی بات وہ اب تک ان کی گرد کو بھی نہیں چھو سکی، کیونکہ پولیس کے نزدیک یہ ’بلائنڈ کیس ‘ ہے ۔ اب خدا جانے بلائنڈ کون ہے، پولیس یا کیس؟ میرا ایک دکھ یہ بھی ہے کہ جو کچھ میرے خاندان پر بیتی صرف ایک ہفتے بعد ہمارے تھانے کی حدود سرسید ٹاون (کراچی) میں یہی سب کچھ ایک اور خاندان کے ساتھ دہرایا گیا، یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ نہ جانے ابھی اور کتنی ماوں کو اپنے بچوں کیلئے ان غنڈوں سے زندگی کی بھیک مانگنی پڑے گی؟ کیونکہ پولیس اور خصوصاً سندھ پولیس کا ایک مخصوص طبقے کی چاکری کے علاوہ آپ کو کوئی اور مقصد نظر ہی نہیں آئے گا ۔ یہ عام شہریوں کی جیبوں کی تلاشی لیتے ہوئے تو نظر آئے گی لیکن ڈاکووں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کے لیے رینجرز ہے ناں!

واردات کا شاید سب سے خوفناک پہلو یہ تھا کہ ڈاکو بار بار میرے بیٹے کے سر پر گن رکھ  دیتے اور دھمکیاں دیتے کہ وہ اسے اغوا کر کے ساتھ لے جائیں گے، آپ تصور کریں کہ اکلوتے بیٹے کی ماں پر کیا گزر رہی ہوگی ؟ یہ ڈراوا اتنا خوفناک تھا کہ وہ کئی روز بعد بھی ٹھیک طرح سے سو نہیں پاتی، رات کو اچانک ہڑبڑا کر اٹھ جاتی ہے، بیٹے کو چومتی ہے، چیخنے لگتی ہے کہ و ہ اسے ساتھ لے جائیں گے۔ ایک ماں کی یہ حالت دیکھ کر مندمل ہوتے زخم کیسے چھلتے ہیں یہ وہی جانتا ہے جس پر بیت رہی ہو۔

باپ کی حیثیت سے کیا یہ دکھ کم ہے کہ میر وہی بیٹا جو چند دن پہلے تک فوجی بننے کا خواب دیکھتا تھا ، آج اپنی مٹی پر اعتبار کر نے کو تیار نہیں۔ کہتا ہے ’جیسے ہی میں بڑا ہوںگا اس ملک میں نہیں رہوں گا۔‘ میں سوچتا ہوں کہ کل کو واقعی اگر یہ چلا گیا تو ہمارے پاس رہ کیا جائے گا ؟ بات صرف میرے ذاتی جذبات تک محدود نہیں بلکہ یہ کتنا المیہ ہے کہ ایسے گروہ آزاد پھر رہے ہیں، اچھے بھلے لوگوں کو ریاست سے متنفر کر رہے ہیں ،سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں ملک سے بے گانگی اور بے زارگی کے بیج بو رہے ہیں ۔دنیا کی مہذب ریاستوں میں حکومتی مشینری کسی بھی حادثے کی صورت میں اپنے شہریوں کو لاوارث اور تنہا نہیں چھوڑتی، اپنے شہریوں کے اطمینان قلب کے لیے وہ آخری حد تک کوشش کرتی ہے لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہو گا جہاں جس کا غم ہے بس اسی کا ہے۔ہماری پولیس کی بے حسی کا عالم دیکھیں کہ اس کے پاس ایک کال کرکے جھوٹا دلاسہ دینے کا بھی وقت نہیں ہے۔ میری پھوپھی زاد بہن مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ ’ایسا تو نہیں کہ ہم سے کوئی بھول ہوگئی ہو؟‘ میں نے جواب دیا ۔’ہماری بھول کے بارے میں تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اس عہد کے سلطاں سے بھول ضرور ہوئی ہے ورنہ کسی کے خون پسینے کی کمائی یوں نہ لٹتی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).