مجنوں ہوا ہے شہر تو ویرانہ کیا کرے


مجھے رشک آتا ہے اس کسان پر جو پاکستان کے کسی دور افتادہ گاوں میں اپنے آبا و اجداد کی طرح سورج کو مشرق سے اُبھرتا اور مغرب میں غروب ہوتا، موسموں کو بدلتا، فصلوں کو اور بھیڑ بکریوں کو اور انسانوں کو جیتے مرتے دیکھا کیا۔ نہ جانا کہ اُس کی دُنیا سے آگے کیا ہے؛ نہ اِس کی ضرورت محسوس کی۔ یہاں تک کہ ایک بھولے بھٹکے رپورٹرکا اُدھر سے گزر ہوا۔ بھوک پیاس کے مارے رپورٹر نے ایک درخت کی چھاوں میں آدھی روٹی کھانے اور کنویں کے ڈول سے پانی پینے کے بعد دیکھا کہ وہ ایک سفید رِیش کسان ہے۔

رپورٹر نے پوچھا، ”سڑک کدھر ہے بابا، جہاں سے بس مل جائے؟“ کسان نے بے بسی سے دائیں بائیں دیکھا۔ ”اسلام آباد جانے کے لیے۔۔“

”اسلام آباد؟“ کسان نے داڑھی کھجائی۔ ”یہ کہاں ہے؟“
”حد ہے بابا! پاکستان کا تو پتا ہے نا؟“ رپورٹر جھنجلایا۔
”پاکستان؟ کبھی سنا نہیں۔“

یہ فرضی کہانی نہیں ہے۔ پاکستان بننے کے ساٹھ سال بعد کا واقعہ ہے۔ وہ لا ولد کسان اپنے باپ کا اکلوتا تھا، باپ کی طرح روز اسی گھر سےنکلتا تو اسی کھیت تک جاتا۔ سال میں دوچار بار قریب کے ایک قصبے سے اپنے اور بیوی کے لیے کپڑا لاتا؛ بیماری میں مولوی صاحب سے تعویذ لیتا، بیوی چکی پر آٹا پیس لیتی؛ ایک گائے کا دُودھ دہی مکھن گھی ان کو کافی تھا۔ نمک مرچ کے ساتھ جو سبزی ملتی پک جاتی؛ وہاں نہ بجلی نہ اخبار نہ ریڈیو ٹی وی۔ اس کو کون بتاتا کہ مغلوں کا زمانہ گیا پھر سکھ آئے، اُس کے بعد انگریز اور اب مسلمانوں نے پاکستان حاصل کر لیا ہے اور اس کے دارالخلافہ اسلام آباد کا شہر آباد ہوئے بھی چالیس برس سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ اس کو جاننے کی ضرورت ہی نہ تھی۔

ضرورت مجھے بھی نہیں۔ یہ جاننے کی کہ پاناما گیٹ اسکینڈل کیا ہے۔ کرپشن کون کر رہا ہے اور کیوں۔ کس نے کس کے خلاف یا حق میں کیا کہا ہےٍ اور کیوں۔ سیاست میں کیا ہورہا ہے؛ کیا ہونا چاہیے۔ کیا نہیں اور کیا ہوگا۔ یہ ایسی کہانیوں کی کتاب ہے جس میں نام بدل کے وہی واقعات لکھے ہوئے ہیں اور بار بار پڑھنے سے مجھے مکالمے تک ازبر ہو چکے ہیں۔ اب کیا اخبار اور ان کے منجھے ہوئے کالم نگار؛ کیا ٹی وی کے بریکنگ نیوز لانے والے اینکر۔ تجزیہ کار اور کیا سوشل میڈیا کے احباب، شاعر، ادیب، پروفیسر، ڈاکٹر، سب پر پاناما کیس کا آسیب یوں سوار ہے کہ لگتا ہے صور اسرافیل کے پھونکے جانے کا وقت آگیا۔ قرب قیامت کی جو نشانیاں ہر گزری صدی میں ہر گرگِ پارسا کو دکھائی دیتی رہیں۔ اب تو شک کی گنجایش ہی نہیں، تاریخ اور وقت کا تعین ہوگیا۔ جب کہ دنیا میں سورج اگلے دن طلوع ہوگا تو کہیں کچھ مختلف نہ ہوگا۔ صبح دم دُودھ دہی کی دُکانیں اُسی طرح کھلیں گی۔ بچوں کو اسکول لے جانے والی وین اسی وقت پر ہارن دے گی۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے تیز گام اسی طرح وِسل دیتی گزرے گی، تو میرا ناشتا جاری ہوگا۔ میری ایک پوتی ٹھیک نو بجے فرسٹ ایر کے سالانہ امتحان کا پیپر دیکھے گی، ٹول ٹیکس پلازا پر گاڑیاں رُکیں گی؛ لیکچرر بوٹنی پر لیکچر دیں گے۔ کسی مردہ جسم کا پوسٹ مارٹم ہوگا؛ محبت کرنے والے وہی کریں گے جو کرتے ہیں؛ اور اس سے اگلے دن اور اس سے اگلے دن مختلف کچھ بھی نہ ہوگا۔

لیکن جس آسیب سے مفر نہیں اس نے مجھے ہر سمت سے محصور کر رکھا ہے؛ پاناما کیس ہے۔ سب کے حواس اور اعصاب کو کسی نادیدہ ہاتھ نے یوں مسحور کیا ہے کہ ہپناٹایز ہو جانے والوں کی طرح وہ نہیں جانتے کہ جو سوچ رہے ہیں یا بول رہے ہیں اور کر رہے ہیں، کیوں بے مقصد ہے؟ جب کہ وہ تو سوچنے سمجھنے کی صحیح با مقصد سَمت بتانے سمجھانے والے ہیں۔ وہ جن کے ہاتھوں نے سقراط کو زہر کا پیالہ دیا۔ ابن مریم پر پتھر اٹھائے؛ آخری نبیؐ کو شہر بدر کیا؛ یا مشال خان کو مارا۔ ایک سوچ کے اندھے مقلد کر دیے گئے تھے۔ وہ بھیڑ سے الگ ہوکر سوچنے کی طاقت سے محروم بنا دیے گئے تھے۔ جیسے ہم بھی بارہا بنائے گئے؛ آج بھی فیس بک پر بعد از وقت کے اعترافات ہیں، کہ وہ ضیا اور بھٹو یا چودھری افتخار کے پیچھے دیوانہ وار کیوں گئے۔

کاش یہ ممکن ہوتا کہ میں ایک مہینا بھی کسی جگہ اکیلا صرف اپنے ساتھ رہتا اور لوٹ کر آتا تو سب وہیں ویسا ہی ملتا جیسا کہ ہمیشہ سے ہے۔

احمد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد اقبال

احمد اقبال 45 سال سے کہانیاں لکھ رہے ہیں موروثی طور شاعر بھی ہیں مزاحیہ کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع ہو کے قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکا ہے سرگزشت زیر ترتیب ہے. معاشیات میں ایم اے کیا مگر سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ملکی تاریخ کے چشم دید گواہ بھی ہیں.

ahmad-iqbal has 32 posts and counting.See all posts by ahmad-iqbal