پانامہ فیصلہ اور میرے نیکو کار محلے دار


ایک کلاس روم میں استاد نے تختہ سیاہ پر چاک سے ایک لکیر کھینچی اور طلبہ سے کہا کہ وہ اس لکیر کو موڑے اور توڑے بغیرہی چھوٹی کر دیں ۔ ایک سیانا طالب علم اٹھا اور اس نے اس لکیر کے اوپر ایک بڑی لکیر کھینچی اور کہا کہ استاد کی کھینچی لکیر اب چھوٹی ہو چکی ہے۔ پھر اس لکیر کو چھوٹی کرنے کے لئے ایک اور بڑی لکیر کھینچی گئی اور یہ سلسلہ کلاس روم کے ہر بچے نے ایک بڑی لیکر کھینچ کر جاری رکھا اور آخر میں استاد کی کھینچی اولین لکیر بالکل ہی چھوٹی نظر آنے لگی۔

 اپنی ساری زندگی سماجی ناہمواری کے خلاف لڑنے والے معروف ترقی پسند راہنما معراج محمد خان مرحوم نےجو یہ قصہ سنایا تھا وہ وقت کیساتھ کیساتھ پاکستان میں سیاسی اور سماجی زبوں حالی کے حوالے سے تھا۔ دوسری طرف محلے سے شہر ،صوبے اور ملکی سطح تک یہاں رہنے والے صالحین اور نیکو کاروں نے اس میں جو اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے اس پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں اپنا حصہ بھی صاف نظر آجاتا ہے۔

 میں اسلام آباد کے متوسط درجے کے ایک سیکٹر میں رہتا ہوں جہاں کی زمین کسی زمانے میں سرکاری ملازمین کو الاٹ کردی گئی ہوگی مگر اب یہاں درمیانی درجے کے کاروباری لوگوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی رہائش ہے۔ اس سیکٹر کے گرد و نواح میں اسلام آباد میں چھوٹے ملازمین کے لئے بنائے جانے والے فلیٹ بھی ہیں اور ساتھ ہی اس کے مرکز میں اسلام آباد کی متوسط درجے کے لوگوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے نام سے منسوب ہے۔

 اسلام آباد کے ماسٹر پلان کے مطابق ہر سیکٹر کے ارد گرد تعمیر کی گئی دو روّیہ سڑک (ڈبل روڑ ) کے ساتھ ایک سبز پٹی(گرین بیلٹ) مختص کی گئی ہے جو شہر کا پھیپھڑا کہلاتی ہیں۔ اس سیکٹر کے اس پھیپھڑے میں ابتدائی طور پر چند صالحین نے دوپہر کو کام کے دوران نماز ادا کرنے کے لئے جو چھپر بنائے تھے اب وہ چھپر نہ صرف بڑی مسجدیں بن چکے ہیں بلکہ یہ مدرسہ کمپلکس کی شکل اختیار کر گئے ہیں جہاں پورے ملک سے سینکڑوں طلبا رہائشی بندوبست کے ساتھ زیر تعلیم ہیں۔ گزرتے وقت کیساتھ ان مدارس اور مساجد کی تعمیر کا پھیلاؤ جاری ہے اور شہر کے پھیپھڑے سکڑتے جارہے ہیں۔ یہ مدارس ملک کے صالحین کی دینی سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں اورطلبا ءہر وقت ملک میں کرپشن اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کے خلاف صف آراء ہونے کے لئے اپنے اکابرین کے حکم کا منتظر رہتے ہیں۔

اس سیکٹر کے ایک حصے کو دفاتر کے لئے مخصوص کیا گیا ہے جہاں ایک بڑے قومی ترقی کے ادارے کے صدر دفتر کے علاوہ کچھ اور سرکاری کمپنیوں کے دفاتر بھی واقع ہیں۔ یہاں کونے کا ایک بڑا پلاٹ ایک ریٹائرڈ افسر کو اس کے دیہی ترقی کے لئے کام کرنے والی فاؤنڈیشن کو دیا گیا ہے۔ اس فاؤنڈیشن کو میں نے بھی صرف اس عمارت کے سامنے لگے سائن بورڈ پر ہی دیکھا ہے۔ اب اس عمارت میں ایک بنک اور پاکستان میں غیر سرکاری اداروں کو صالح اور نیکو کار ہونے کی سند دینے والے ایک ادارے کا دفتر قائم کیا گیا ہے۔ اب اس فاؤنڈیشن نے سامنے والی سبز پٹی (گرین بلیٹ ) میں بھی تعمیرات شروع کی ہیں اور اس پلاٹ کیساتھ ایک سکول کی تعمیر بھی جاری ہے۔

کسی غیر سرکاری ادارے کو اس کے مقاصد کے حصول کے لئے زمین دینا کوئی برائی نہیں لیکن اس ادارے کی طرف سے اس زمین کو تجارتی مقاصد اور ذاتی منافع کے لئے استعمال کرنا شاید قانون کے مطابق جرم ہے ۔ عوامی فلاح و بہبود کے لئے غیر سرکاری اداروں میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے اس کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کی متواتر تبدیلی لازمی ہوتی ہے لیکن یہاں گزشتہ چار دہایئوں سے ایک صاحب اس ادارے کو ذاتی ملکیت کے طور پر چلا رہے ہیں ۔ اب تو یہاں غیر سرکاری تنظیموں کے صالح اور نیکو کار ہونے کی سند دینے والی انجمن کا بطور کرایہ دار دفتر بھی قائم کردیا گیا ہے جس نے اس فاؤنڈیشن کو بھی اس کے صادق اور آمین ہونے کی سند عطا کی ہے جس کا ذکر اس ادارے کی ویب سائٹ پر نمایاں طور پر ہے۔ واضح رہے کہ اس انجمن کی جاری کردہ سند کے بعد غیر سرکاری ادارے پاکستان میں ٹیکس سے مستثنیٰ بھی ہوجاتے ہیں۔

یہ تو ذکر صرف چند مذہبی اور غیر سرکاری اداروں کے صالحین کا تھا میرے محلے میں عام لوگ بھی بڑے نیکو کار ہیں۔ میرے محلے کا ایک حاجی صاحب ایک دوکان میں ہوٹل چلاتے ہیں جس کے سامنے بچوں کے کھیلنے کے پارک میں لگے جھولے ہٹا کر انھوں نے میز کرسیاں سجا ئی ہیں جہاں خلق خدا کی خدمت میں وہ دن رات مصروف رہتے ہیں۔ حاجی صاحب کا ہوٹل محلے کے لوگوں کی ملنے کی جگہ بھی ہے جہاں میں بھی کبھی کبھار چائے پینے چلا جاتا ہوں اور اپنے دوستوں سے خوش گپیاں لگاتا ہوں ۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ حاجی صاحب بچوں کے پارک کو اپنے تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کیوں کرتے ہیں تو ان کا جواب بھی لاجواب تھا۔ کہنے لگے کہ اگر وہ اس پارک کو صاف کرکے یہاں کرسیاں نہ لگاتے تو ابھی تک یہ پارک کچرا کنڈی بن گیا ہوتا۔ وہ تو اس لئے اس پارک کو استعمال کرتے ہیں کہ لوگ یہاں اپنی الائشیں نہ پھینک سکیں اور یہ جگہ صاف ستھری رہے۔ چونکہ صفائی جزو ایمان ہے اس لئے وہ اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔

اس محلے کے ایک کونے میں پڑی خالی جگہ پر زمینوں اور پلاٹوں کی تجارت سے وابستہ ایک صاحب نے باڑ لگا کر سبزیاں اگا رکھی ہیں۔ اس نے اپنی سبزیوں کی حفاظت کے لئے مسلح محافظ بھی چوکس رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے یہاں سےگزرتے گزرتے ایک محافظ سے پوچھ لیا کہ سرکاری املاک پر یہ باڑ کیسی تو وہ کہنے لگے کہ ان کا مالک ایک انتہائی خدا ترس آدمی ہے جس نے اس بیابان جنگل کو آباد کرکے ثواب دارین حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔

میں اپنے محلے میں قائم اس چھوٹی مارکیٹ میں بیٹھے نیکو کاروں کا ذکر کیسے نہیں کروں جو گوشت سبزی کی کوئی نئی دوکان کھولنے اس لئے نہیں دیتے کہ بقول ان کے نئے لوگ معیاری اشیا نہیں بھیچتے اور پھر نئے لوگوں کے سستے مال کی وجہ سے گاہکوں کی عادتیں بھی خراب ہو جاتی ہیں۔ کل جب میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس مارکیٹ میں گیا تو سارے لوگوں کے منہ لٹکے ہوئے تھے اور پوچھ رہے تھےکہ نواز شریف کو پنامہ کے کیس میں سزا کیوں نہیں ملی۔

یہ تو میں نے آپ کو اپنے ایک مربع کلو میٹر کے احاطے کے سیکٹر میں رہنے والےنیکو کاروں اور صالحین سے ملایا ہے اور جس شعبے سے پیشہ ورانہ طور پر میں وابستہ ہوں اس میں موجود صالحین اور نیکو کاروں سے ملانا شروع کردوں تو شاید ایک کتاب کی لکھنے کی ضرورت ہو مگر ڈر یہ ہے کہ اس کے بعد میں خود بے روزگار ہو جاؤں گا کیونکہ ان صالحین اور نیکو کاروں میں سے میں بھی ایک ہوں ـ

شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی

ہزار ہاتھ گریباں تک آ گئے ازہر

ابھی تو بات چلی بھی نہ تھی زمانے کی

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan