نواز شریف مارتے کم ہیں گھسیٹتے زیادہ ہیں


سپریم کورٹ نے تفتیشی ٹیم بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ حزب اختلاف نے تفتیشی ٹیم کو مسترد کر دیا ہے۔

راجہ ظفر الحق فرماتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ وزیراعظم ٹیم کے سامنے پیش ہوں۔ ان کے وکیل بھی پیش ہو سکتے ہیں۔

جے آئی ٹی کی تشکیل کو مسترد کرنے کا فیصلہ جمعہ کو پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کی۔ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ’جے آئی ٹی بنانی ہے تو سپریم کورٹ کے تین ججوں یا ہائی کورٹ کے چاروں چیف جسٹسوں کی جے آئی ٹی بنائی جائے‘۔

عمران خان حیران ہو رہے ہیں کہ سرکاری ادارے کیسے وزیراعظم کے خلاف کارروائی کریں گے۔ انہیں تو وزیراعظم کنٹرول کرتا ہے۔ انہوں نے کچھ کرنا ہوتا تو اب تک کر چکے ہوتے۔

اعتزاز احسن نے یاد دلایا ہے کہ ایف آئی اے کا ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل وزیر داخلہ کے ماتحت ہوتا ہے وہ کیا تفتیش کرے گا۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ’وہ کیا نامزد کرے گا گورنر سٹیٹ بینک کا گورنر تو شریف خاندان کے گھرانے کا ایک فرد ہے۔ ایس ای سی پی کا چیئرمین ان کا اپنا لگایا ہوا ہے۔ آئی ایس آئی کے ساتھ ان کا تعلق خاندانی ہے۔ 19 اور 20 گریڈ کے افسران وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی کیا تحقیقات کری گے۔ ہم اس جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہیں۔ ‘

اعتزاز احسن کے اس بیان پر آئی ایس پی آر کی ایک ناراضگی بھری ٹویٹ بھی آئی ہے کہ یہ کمنٹس بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں مگر اعتزاز احسن اپنے موقف پر جمے ہوئے ہیں۔

سراج الحق صاحب فرماتے ہیں کہ اخلاق کا تقاضا ہے کہ میاں نواز شریف استعفی دیں۔

تو صاحبو اب اس کمیٹی پر ہی پھوٹ پڑ گئی ہے تو کیا ہو گا؟ مشہور ناول گاڈ فادر کا آخری باب یاد آ رہا ہے جب ڈان مائیکل کارلیونی نے ایک ایک دشمن کو چن چن کر مارا تھا۔

بہرحال، اب بات اخلاقی استعفے پر آ گئی ہے تو عمران خان کا دھرنا یاد آ رہا ہے۔ اس میں بھی یہی مطالبہ تھا۔

حیرت ہے کہ عمران خان صاحب کو ابھی تک ایک بات کی سمجھ نہیں آئی ہے۔ خان صاحب ٹی ٹوینٹی کھیلنے کی حکمت عملی استعمال کر رہے ہیں مگر میاں نواز شریف ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں۔ ان کا ہدف صرف پانچ دن تک کھیل کو لٹکانا ہے تاکہ میچ کا فیصلہ نہ ہو۔ اسی میں ان کی جیت ہے۔ کبھی وہ انتخابی دھاندلی کے ایشو میں عمران خان کو مصروف کر کے ڈھائی سال گزار دیتے ہیں، کبھی پاناما کا کیس شروع ہو جاتا ہے اور ڈیڑھ سال اس میں نکل جاتا ہے۔ اب یہ کمیٹی بنی ہے تو پانچویں سال کا کھیل اس کی نذر ہو جائے گا اور میچ بلا نتیجہ ختم ہو جائے گا۔ اگلے میچ کا اعلان ہو گا کہ 2018 کے الیکشن میں عوام کو فیصلہ کرنے دو۔

ویسے سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے بجائے نواز شریف کو ہٹانے کے یک نکاتی ایجنڈے کے، انتخابی اور قانونی اصلاحات پر زور کیوں نہیں لگایا؟ اب اگر نواز شریف صاحب کو اچانک اخلاقیات یاد آ بھی گئیں اور وہ راضی خوشی یا بہ جبر و اکراہ استعفی دینے پر رضامند بھی ہو گئے تو کیا ہو گا؟ اسی پرانے سسٹم کے تحت الیکشن ہو گا۔ کون جیتے گا؟ کون وزیراعظم بنے گا؟ بظاہر نواز شریف ہی بنیں گے۔ تحریک انصاف اس وقت پورے پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن ایسا کر سکتی ہے۔ نواز شریف مستقل نا اہل بھی قرار دے دیے گئے تو مریم بی بی موجود ہیں۔ وہ نہ بھی بنیں تو شہباز شریف ہیں۔ لاہور کے گرد و نواح میں شریف خاندان کے کوئی دو چار درجن ممبران قومی و صوبائی اسمبلی تو ہوں گے۔ ان میں سے کوئی کٹھ پتلی وزیراعظم بن جائے گا جس کی ڈوریاں میاں نواز شریف ہلائیں گے۔

تو نواز شریف صاحب کو ہٹا کر کیا فیض ملے گا؟ وزیراعظم بدلنے کی بجائے سسٹم بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کی جا رہی؟

جناب عمران خان کی مسلسل مہم جوئی کا جو نتیجہ نکل رہا ہے اسے سلیس اردو محاورے میں کہتے ہیں کہ ’کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘۔

دوسری طرف نواز شریف صاحب کی حکمت عملی یہی ہے کہ تحریک انصاف کو سایوں کے تعاقب میں مصروف رکھو اور خود سکون سے اپنا ٹائم پورا کرتے رہو۔ نواز شریف مارتے کم ہیں گھسیٹتے زیادہ ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar