اسلام آباد کتاب میلہ اور میری ناراض سہیلیاں


آج کتنے ہی گھروں میں سجے شیلف میں رکھی کچھ کتابوں کو نئی سہیلیاں مل گئیں، اسلام آباد میں کتاب میلہ سجا ہے، بڑا رش تھا ایک خلقت پاک چین دوستی مرکز پہنچی تھی کتابوں کا جشن منانے۔ میں بھی وہیں تھی، دل بلیوں اچھل رہا تھا ڈھیروں ڈھیر کتابوں کے بیچ خود کو پا کر اور خوشی دوبالا تھی کہ عوام کی اچھی خاصی تعداد علم دوستی کی وجہ سے یہاں پہنچی تھی۔

سب سے پہلے اینکر پرسن سبوخ سید سے ملاقات ہوئی، دونوں ہاتھوں میں پلاسٹک کی تھیلیوں میں لپٹی بھاری بھر کم کتابیں اٹھائے چلے آرہے تھے، میں نے دعا سلام کی تو کتابیں ایک طرف رکھ کر اپنا سُرخ ہاتھ دکھانے لگے کہ وزن واقعی بہت تھا۔ ان سے پوچھا تو پتا چلا کہ انڈیا سے شائع شدہ ایک کتاب مارکیٹ میں عنقا تھی اس لیے یہاں سے ملی تو فورا خرید لی۔

اگلی ملاقات منٹو کے سنہری مجسمے کے ساتھ فخریہ براجمان بشیر چودھری سے ہوئی، بشیر نجی چینل ٹوئنٹی فور کے کاریسپانڈنٹ ہیں۔ بشیر اس لیے فخریہ طور پر بیٹھے تھے کیونکہ گود میں ان کی پیاری بیٹی بھی تھی جسے وہ کتاب شناسی کے لیے لائے تھے۔

میں کتابوں کے کچھ اسٹالز دیکھنے لگی تو ملاقات جیو نیوز کی کاریسپانڈینٹ نوشین یوسف سے ہوئی، نوشین کے ہاتھوں میں بھی ڈھیروں کتابیں تھیں کہنے لگیں کہ اپنی بھانجی کے لیے کچھ کہانیوں کی کتابیں لی ہیں اور اپنے لیے پارلیمنٹ کی تاریخ کے حوالے سے کتاب خریدی ہے۔

میں اگلے تین گھنٹے کتب میلے میں اپنی نیوز رپورٹ بناتی رہی، کتب بینی کے ایک سیشن میں بھی شرکت کی۔

 میلے سے باہر نکلی تو سما نیوز اسلام آباد کے بیورو چیف خالد عظیم صاحب سے ملاقات ہوئی ان کے ہاتھ میں خریدی گئی کتابوں کا پلندہ، سبوخ سید کی وزنی کتابوں سے بھی زیادہ تھا، میں نے سلام دعا کے بعد کتابوں کا پوچھا تو کہنے لگے کہ آج یہ سوچ کر نہیں آیا تھا کہ کتابیں خریدنی ہیں پھر اتنی خرید لیں۔

ایک دوست نے بتایا کہ بول نیوز کے سینئر صحافی جاوید نور نے میلے سے ڈھیروں کتابیں خریدی ہیں اور کہتے ہیں انہوں نے پچیس ہزار کا بجٹ علیحدہ کررکھا ہے۔

میں دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگی کہ تین گھنٹے کتابوں کے بیچ گزار دیئے مگر ایک بھی کتاب نہیں خریدی، پھر ملاقات ہوئی ڈان نیوز کے سینئر کاپی ایڈیٹر مصطفی بیگ سے، ان کے ہاتھ میں بھی کتابیں دیکھیں، مجھ سے رہا نہ گیا میں نے جھٹ سے ان سے کتابوں والا شاپر لیا اور ندیدوں کی طرح کتابیں ٹٹولنے لگی، ” مارک زکر برگ، بل گیٹس اور اسٹیو جابس کی آپ بیتیاں ” مصطفی بیگ کہنے لگے کہ اپنی بیٹی کے لیے خریدی ہیں۔ میں نے کہا کہ بیٹی کو بھی ایکسٹرا آرڈنری بنانا چاہتے ہیں۔

مجھے رشک سا محسوس ہوا کہ کیسے خوش قسمت ہیں یہ سب لوگ جو کتب میلے سے بھر بھر جھولی علم کے موتی سمیٹ کر شاداں و فرحاں اپنے اپنے گھروں کو جارہے ہیں۔ اور ایک میں ہوں جو واٹس ایپ کے گروپس میں بھیجی گئی خبروں کو یہاں وہاں کرنے میں دن کے اکثر قیمتی لمحے ضائع کردیتی ہوں، میرے گھر کے بُک شیلف میں پڑی کتابیں فیس بُک اور ٹوئٹر کے سامنے ہار گئی ہیں، ابھی پچھلے مہینے جو گلزار کی نظموں غزلوں اور تروینی کا دیوان لیا تھا وہ بھی سرہانے پڑا مجھے کوس رہا ہے۔ اور وہ عصمت چغتائی کے افسانوں کی کتاب نے تو جیسے مجھے عاق ہی کردیا ہے۔ میری کتابیں شکوہ کرتی ہیں کہ ہر ماہ کسی نئی کتاب سہیلی کا اضافہ تو شیلف میں ہوجاتا ہے مگر وہ میرے ہاتھوں کا لمس نہیں پاتیں۔ کتنے ہی ورق ایسے ہیں جو بپلشر کی بھول سے آپس میں جڑے رہ گئے، وہ میں نے ابھی تک اسکیل لگا کر علیحدہ نہیں کیے۔ نہ اپنے پسندیدہ جملوں کو ہائی لائٹ کیا،اور افسانوں کی کتابیں تو جیسے غصے میں لال پیلی ہیں وہی جنہیں میں پڑھتے پڑھتے سوجایا کرتی تھی۔

میں گھر سے دفتر، دفتر سے گھر کے گھن چکر میں بس اتنا ہی وقت نکال پاتی ہوں کہ فیس بُک پر یہ اضافہ کردوں کہ آج کہاں گئی کیا کھایا اور کیسی لگ رہی ہوں، میں کھینچ کھانچ کر اس کا وقت بھی نکال لیتی ہوں کہ ٹوئٹر پر سیاست دانوں کے ٹوئٹ دیکھوں اور ٹاپ ٹرینڈ چیک کرلوں، مگر وہ رنگین سرورق جنہیں کتاب کا نچوڑ سمجھ کر بہت سوچ کر مصنف نے چُنا ہوتا ہے وہ مجھے رجھا نہیں پاتا۔

میں نے آج اپنے صحافی احباب کے ہاتھوں میں موجود ڈھیروں کتابیں دیکھ کر پہلے خود کو ڈھیر ساری لعنت ملامت کی ہے اور شکر پڑیاں سے نکلتے اس سنگل روڈ پر کھڑے ہوکر یہ قرار داد پاس کی ہے کہ میں پہلے شیلف میں رکھی پرانی کتاب سہیلیوں کو مناؤں گی، نئی سہیلیاں تب ہی بناؤں گی۔

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi