اسلام آباد ادبی میلے میں “ہم سب” کے سیشن پر کچھ تاثرات


اسلام آباد ادبی میلہ کے آخری روز “ہم سب” کی نشست میں طالب علم بھی حاضر تھا۔ امید قوی تھی کہ چونکہ “ہم سب” ٹیم کے متعدد خوش اسلوب لکھاری وہاں جلوہ افروز تھے سو ایک سے زائد قلم کاروں کے تاثرات پڑھنے کو ملیں گے۔ شاید انہوں نے مناسب نہ جانا ہو یا کوئی اور مصلحت آڑے آ گئی ہو۔  ایک ہفتے تک میدان صاف رہنے سے مجھے طبع آزمائی کا موقع میسر آ گیا۔  امید ہے شرکت سے محروم قارئین میری ہر بات کو سچ جانیں گے اور “ہم سب” ٹیم سے بھی توقع ہے کہ میری کسی مبالغہ آرائی یا غلط بیانی کی تصحیح کی چنداں کوشش نہیں کریں گے کہ یہی مہذب لوگوں کا چلن ہوتا ہے۔

سیشن کے آغاز سے کچھ پہلے محترم استاد، وجاہت مسعود صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ تشریف لائے۔ کسی معتبر آدمی کے ساتھ محوِ گفتگو تھے کہ مجھ بدتمیز نے درمیان میں جا لیا۔ نام بتایا تو استاد نے میری توقع سے زیادہ شفقت سے طویل معانقہ کیا۔ بہت پیار سے اپنے خاص دھیمے لہجے میں گفتگو فرمائی۔ طالب علم نے اپنا خوف بیان کیا کہ لکھنے بیٹھتا ہوں تو جونؔ صاحب ڈانٹ دیتے ہیں، “بہت سے لوگوں کو پڑھنا چاہئیے اور وہ لکھ رہے ہیں۔”، استاد نے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں  تھام کر سرگوشی کی، “انہوں نے یہ آپ کے لیے نہیں کہا، آپ لکھتے رہیں۔ افسوس یہ ہے کہ جن کے لیے کہا ہے، انہیں ساری زندگی احساس ہی نہیں ہوتا۔” پھر فرمایا، “فرنود لوگوں سے ملے ہو؟”۔ جواب نفی میں دیا تو ہاتھ تھام کر اس جانب چل دیئے جہاں باقی سب کھڑے تھے۔ بُرا ہو اس ظالم کا، جس کا فون آ گیا اور استاد کی توجہ بٹ گئی۔ خیر فرنود عالم صاحب، حاشر ابنِ ارشاد صاحب، سلیم ملک صاحب، ظفر اللہ خان صاحب، اور وصی بابا سے مختصر ملاقاتیں ہوئیں۔  

فرنود عالم صاحب سے ملنے کے بعد یہ مفروضہ دل میں مزید جڑ پکڑ گیا کہ بندہ اتنا دلکش بھی نہیں ہوتا جتنا فیس بُک ڈی-پی میں نظر آتا اور اتنا بُرا بھی نہیں جتنا قومی شناختی کارڈ پر نظر آتا ہے۔ بہرحال اس بات کا قطعاً وہ مطلب نہ لیا جائے جو میں نے کہا ہے۔ فرنود صاحب اپنی تحریروں کی طرح ہی وجہیہ آدمی ہیں۔ حاشر صاحب سے استفسار کیا، “حضور آپ کسی اخبار کے لیے بھی لِکھتے ہیں؟”، جواب آیا، “پہلے لکھتا تھا، اب صرف “ہم سب” کے لیے۔ اخبار میں نصف سے بیش تر تحاریر تو مسترد ہو جاتی ہیں۔ حدود و قیود بہت ہیں۔” دِل میں لڈو پھوٹے کہ حاشر صاحب اتنے سے لبرل ہیں کہ ان کی ساری تحریریں “ہم سب” پر شائع ہو جاتی ہیں۔ جب کہ  دیہاتی طالب علم روشن خیالی کی وہ منزلیں عبور کر چُکا کہ ایک تحریر “ہم سب” نے بھی مسترد کر دی۔ بھئی واہ، واہ۔ دل خوش ہو گیا۔ وہ تو بعد میں عدنان خان کاکڑ صاحب نے تحریر روکنے کی وجہ بتا کر خوش فہمی دور کی۔ کاکڑ صاحب مجھے ایک آنکھ نہ بھائے۔ وجوہات سادہ ہیں۔ ایک تو ذکر کر چُکا، میری تحریر شائع نہ کی۔ دوسرا، سیشن کے بعد میرے سوال کا جواب نہ دیا- سلیم ملک صاحب اپنی تصویر سے کہیں زیادہ اچھی شخصیت کے مالک ہیں۔ ظفر اللہ خان صاحب کو دیکھ کر یونیورسٹی کے زمانے کا ایک رقیب یاد آ گیا جس سے کچھ اچھی یادیں وابستہ نہیں ہیں۔ ظفر اللہ صاحب سے بات بڑھانا اُن حضرت سے دشمنی ختم کرنے کے مترادف لگا۔ دشمنیاں ختم کرنا ہماری روایت نہیں۔ وصی بابا سے ملنے کے بعد یہ بات عیاں ہو گئی کہ  اپنی زیادہ تصاویر میں وہ صرف چہرے کو ہی نظر آنے کا موقع کیوں دیتے ہیں ۔۔! محترمہ رامش فاطمہ سے گفتگو ہوتی تو ان سے تحریر میں روانی کا نسخۂ کیمیا ضرور لیتا۔  

 نشست اپنے مقررہ وقت پر شروع ہوئی کہ وقت کی پابندی ان ادبی میلوں میں اکثر دیکھنے کو ملتی ہے۔ گفتگو کا موضوع ’سوشل میڈیا: تخلیق اور تبدیلی کے لئے نئی تراکیب‘ تھا۔ شرکا میں عدنان صاحب اور محترمہ لینا حاشر کے علاوہ فرانسیسی صحافی اور مصنف سلیمان زیغیدور صاحب اور ڈاکٹر معید پیرذادہ صاحب بھی تھے جب کہ ماڈریٹر وہی حلیم آدمی، وجاہت مسعود صاحب۔  

ابتدایئہ کے بعد محترمہ لینا حاشر کی تحریر “گول روٹی نہ پکانے والی انیقہ خالد کا جنت سے اپنے والد کے نام خط” پر مبنی ایک مختصر ویڈیو دکھائی گئی۔ تحریر بہترین تو ویڈیو کہیں زیادہ قابلِ ستائش تھی۔ پھر عدنان کاکڑ صاحب نے “ہم سب” کا نصب العین بتایا کہ یہ اردو زبان میں انگریزی اخبارات کے سے منطقی اور علمی مکالمے کے فروغ کی کاوش ہے۔ “ہم سب” کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا تذکرہ بھی ہوا۔

سلیمان زیغیدور صاحب کی بات مجھ کج فہم کے کم ہی پلے پڑی۔ سبب ظاہر ہے، میرا انگریزی میں ہاتھ تنگ ہے، سونے پہ سہاگہ محترم  زیغیدور صاحب بھی اس معاملے میں میرے آس پاس ہی تھے۔ بہرحال ان کی ایک بات نے دِل پر اثر چھوڑا، “سوشل میڈیا تو نقد تاثرات مانگتا ہے۔ جب کہ میں تو اتنا تیز نہیں۔ مجھے رائے قائم کرنے کے لیے معقول معلومات چاہیئے ہوں گی۔” واہ حضور، سوشل میڈیا تو ایک طرف جس ٹیلی ویژن چینل سے آپ منسلک ہیں، اِس سوچ کے ساتھ تو اس کا بیڑہ غرق ہو گیا ہو گا۔ ہمارے ہاں تو “سب سے پہلے، سب سے تیز” کی روایت ہے۔ جس سے نیوز چینلز بیک وقت معلومات اور تفریح کا سامان کیے رکھتے ہیں، سو ہر عمر کے افراد میں یکساں مقبول ہیں۔

ڈاکٹر معید پیرذادہ صاحب کی گفتگو سن کے یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ ان کے پروگرام میں عمومًا ایک سے زائد شرکا کیوں نہیں ہوتے! سنا ہے کہ کسی زمانے میں افسر شاہی کا حصہ بھی رہے ہیں۔  حضرت کو لمبی گفتگو خود کرنے کا شوق ہے۔ موصوف نے محض ایک سوال کے جواب میں سات منٹ صرف کر دئیے۔ نتیجتاً مجھ ایسوں کے باری ہی نہ آئی۔ بہرحال صاحبِ علم ہیں۔ گفتگو مدلل اور شائستہ ہی فرمائی۔

سوال وجواب کے سیشن میں موقع محض استاذی وجاہت صاحب کی شفقت سے ملا، طالب علم کا ڈاکٹر معید صاحب سے سوال تھا، “سوشل میڈیا تبدیلی کا آلہ کار تو ہے۔ لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ تبدیلی منفی ہے؟ عدم برداشت اور ہیجان میں یہ اضافے کا باعث تو نہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو اس صورت حال سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے؟”۔ عدنان کاکڑ صاحب سے استفسار کیا، “منطقی مکالمے کے فروغ میں “ہم سب” کا کردار تعریف کے لائق، لیکن پسماندہ علاقوں اور دیہاتوں میں تو “ہم سب” کے قارئین نہیں ہیں۔ وہاں تو ابھی بھی سات روپے والا اردو اخبار پڑھا جاتا ہے، جو کہ ان ہی کی سوچ کی ترجمانی کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں اور “ہم سب” کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لیے کوئی مناسب طریق زیرِ غور ہے؟” جواب، دامنِ وقت کی تنگی کے باعث ایک سوال کا بھی نہ مِل سکا۔

مجموعی طور پر یہ ایک ،مناسب، معتدل اور خوشگوار نشست تھی۔ طالب علم کے لیے زیادہ مسرت کی بات، یقیناً، استاد کی محبت اور حوصلہ افزائی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).