عدالت نے آگے بڑھنے کا موقع دیا ہے


اگلے الیکشن کے ساتھ ہی جمہوری ہانڈی کو چولہے پر چڑھے دس برس ہو جائیں گے۔ بیس کروڑ گوبھیاں اسی جمہوری ہانڈی میں پڑی پک رہی ہیں۔ گوبھی کی فصل تیار ہو تو اس کا کھیت ہنستا مسکراتا دکھائی دیتا ہے۔ تب بھی مسکراہٹ برقرار رہتی جب ان گوبھیوں کو آلودہ گندے پانی سے سیراب کیا جا رہا ہو۔ ہماری قوم کی خوش رہنے والی گوبھی طبعیت ہی ہے جو ہمیں بڑے بڑے بحرانوں سے نکال لاتی ہے۔

جب سے جمہوریت دوبارہ بحال ہوئی ہے اس نے بڑے مشکل حالات کا سامنا کیا ہے۔ ایک طرف طالبان بھوت بنے جگہ موقع وجہ دیکھے بغیر پھٹتے پھر رہے تھے۔ کبھی امریکی ایبٹ آباد پہنچ گئے۔ شیخ اسامہ تو ایبٹ آباد میں اوٹ سے مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ ہماری بے بی جمہوریت کا بھی دم نکل ہی گیا تھا۔ کوئی کسر رہ گئی تھی تو حسین حقانی لیٹر بازی کرتے پھڑے گئے۔

یہ بے بی جمہوریت عدلیہ بحالی تحریک کے ہاتھوں خوار ہوئی۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ پھر چیف کی بحالی کے افتخار چوھدری صاحب نے پوری کر دی۔ ارسلان افتخار نے اپنے ابو جی کی عدالتی بے قراری کم کر کے جو قومی خدمت کی اس کا اعتراف نہ کرنا بھی زیادتی ہے۔ پی پی حکومت کو میڈیا نے بھی سینگوں پر اٹھائے رکھا۔ الطاف بھائی نے بھی مستقل آؤٹ آف کورس پرچہ اسی بے بی جمہورت کو ہی حل کرنے کے لیے پکڑائے رکھا۔

جیسے تیسے پہلے پانچ سال پورے ہو گئے۔ ہر کام بکھیر کر کرنے والی پی پی کی جگہ مسلم لیگ نون کی حکومت آ گئی۔ مسلم لیگ نون والے بھی دل سے جیالے ہی ہیں بس ایک فرق ہے معمولی سا یہ ساری فنکاریاں بہت دیکھ بھال کر ہوشیاری کے ساتھ کرتے ہیں۔ پی پی والے نیکی کے کاموں میں اپنی پوری بزتی کا اہتمام کرتے ہیں۔ آپ نہیں مانتے تو ان کے حج سکینڈل یاد کر لیں۔ اس کیس میں بزتی بھی پوری کرائی ہے اندر بھی ہوئے ہیں سزا سے بچ گئے ہیں۔ مسلم لیگ نون والوں پر کچھ ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر کہیں کوئی شبہ ہو بھی جائے تو وہ مٹھائی کا ٹوکرا منگوا کر کھلا دیتے ہیں کہ کھاؤ اسی جت گئے آں یعنی ہم جیت گئے ہیں بھنگڑے ڈالو۔

مسلم لیگ نون والوں کے دل کا قرار رات کی نیند بس کپتان نے ہی لوٹا ہے۔ کپتان مستقل مزاجی سے مسلم لیگ نون کا بیڑہ غرق کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ایک دھرنا دوسرا دھرنا مستقل حالت احتجاج میں ہے۔ اپنی حکومت ڈبو لے گا اپنی سیاست غرق کر لے گا لیکن مسلم لیگ نون کے پلے بھی کچھ نہیں چھوڑے گا۔ مسلم لیگ نون والوں کو خواہ مخواہ معزز دکھائی دینے کا اتنا شوق نہ ہوتا وہ اپنے دل کی باتیں کہتے تو کپتان کی بھی طبعیت صاف ہوتی اور ان کی بھی اصلیت ظاہر ہوتی۔ پاکستان میں بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن کپتان کی ساری سیاست بس ایک ہی نکتے پر گھومتی ہے۔ اس کی ساری سیاست کا محور بس کرپشن ہے۔ وہ اتنی شدت سے اس ایشو کو اٹھاتا ہے کہ کبھی کبھی لگنے لگتا کہ شاید کرپشن کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اسے ختم ہی کرنا چاہتا ہے ظاہر ہے۔ کپتان کی نیت کے بارے میں غلط سوچنے کا گناہ ہوتا۔ عذاب اس پر بھی آتا ہے جو اس کی سیاست کا مداح ہو نہیں یقین تو کے پی والوں سے پوچھ لیں جہاں تبدیلی آ چکی ہے۔ کیا تبدیلی یہ بتاتے ہوئے وہ ہکلانا شروع کر دیتے ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت چل نکلی ہے۔ ادارے مضبوط ہو رہے ہیں۔ جمہوریت کی ہانڈی میں ابلتی گوبھیاں مسکرا تو حسب معمول رہی ہیں لیکن ان کی روزمرہ مشکلات بالکل کم نہیں ہوئیں۔ مشکلات زندگی کا حصہ ہیں لیکن ہماری مشکلات ڈبل اس لیے بھی ہیں کہ ہم حقائق کا سامنا ہی نہیں کرتے۔ ہمارے لیڈر ہمیں بتاتے ہی نہیں کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں ہمارے مسائل زیادہ ہیں۔ ہماری زندگی میں کافی ساری آسانی تب آئے گی جب ہم لوگ خود بہتر ہوں گے۔ اپنی صلاحیتیں بڑھائیں گے۔

ہماری عدالت نے ابھی ایک اہم ترین فیصلہ کیا ہے۔ پانامہ کیس کو کرپشن کے حوالے سے ایک بڑی علامت کپتان نے بنایا۔ ہمیں اس پر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اس کیس پر عدالت میں بہت لمبی بحث ہوئی۔ پاکستان کے بہترین قانونی دماغ کئی ہفتوں تک اس کیس کو کئی حوالوں سے پرکھتے رہے۔ کیس کی سماعت مکمل ہوئی تو عدالت نے بھی غور کرنے کے لیے بہت مناسب وقت لیا۔

فیصلہ آ گیا ہے صورتحال کی جوں کی توں رہی ہے سسٹم برقرار ہے۔ وزیراعظم اپنی جگہ پر موجود ہیں، عدالت نے حقائق جاننے کے لیے جے آئی ٹی کا راستہ تجویز کیا ہے۔ اس کیس پر جہاں عدالتی بحث ہوئی ہے وہیں میڈیا نے بھی اس پر کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ ہر ہر زاویے سے گھنٹوں ائیر ٹائم مختص کیا ہے اخبارات کے صفحات کالے کیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب ہی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔

تھوڑی دھول بیٹھے گی وقت گذرے گا تب ہم کھیل کے کچھ نئے ضوابط بنا لیں گے۔ الزام تراشی تفتیش کار سرکار مناصب کے احترام کے لیے نئے ضابطے بنا لیں گے۔ عدالتی فیصلے کا ایک اور بہت ہی دلچسپ اور معنی خیز اینگل ہے۔ جے آئی ٹی بننی ہے جس میں مسلح افواج کے حاضر سروس افسران بھی حصہ ہوں گے۔ اگر تو تفتیش میں وزیراعظم گناہ گار پائے گئے تو تاریخ بن جائیں گے۔ اگر بچ نکلے تو ایک مبالغہ آمیز سوچ کو ایک بڑی شکست ہو جائے گی۔

شاید پہلی بار فوج کے جونیر افسران ایک نئے زاویے سے صورتحال کو سمجھیں گے کہ تحتقیقاتی ٹیم میں ان کے اپنے تجربہ کار افسر شامل تھے۔ کلین چٹ ملی ہے تو اس کا مطلب یہ بھی لیا جائے گا کہ سول پر سیاستدانوں پر لگنے والے سارے ہی الزامات درست نہیں ہوتے۔ جب جونیر افسر یہ بات جانیں گے تو فوج کی سینیر قیادت کو ایک بڑا ریلیف ملے گا۔ سینیر فوجی قیادت پچھلے دس سال سے بہت صبر کے ساتھ بڑے مشکل حالات میں مسلسل جمہوریت کی حمایت کر رہی ہے۔ فوجی قیادت کو سب سے زیادہ سول اور سیاستدانوں کی کرپشن پر ہی سننے پڑتے ہیں۔

عدالت نے واقعی سب کو ہی ریلیف دیا ہے۔ آگے بڑھنے کا ایک موقع فیصلہ صدیوں تک یاد رہے گا یا نہیں ایک لمبی عمر پاتا دکھائی دے جائے شاید۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi