لبرل طالبان – برداشت کی جدلیات اور آن لائن صحافت (2)


سوشل میڈیائی نظریاتی گروہ جب ان حالات میں تشکیل پاتے ہیں تو پھر اگلا مرحلہ ان کی رینکنگ اور اس کے نتائج کے اطلاق کا ہوتا ہے۔ کوئی بھی واقعہ ہونے یا موضوع گرم ہونے کی صورت میں توقع کی جاتی ہے کہ قطار اندر قطار اس پر پالیسی اداریے اور نظریاتی موقف کے وکیل کالم و مضامین پیش کیے جائیں۔ جون بھائی کے فرمان کہ یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں کے مصداق یہاں بھی عجلت میں بلوغتِ نظری قائم رکھنے کے لیے اتنی ہی ہوش مندی کی ضرورت ہے جتنی ٹیلی فون پر براہ راست بات کرتے ہوئے درکار ہوتی ہے جبکہ کسی دیگر علمی اختلاط میں یہ احتمال خط لکھتے ہوئے سنجیدہ نگاری کے امکانات جتنا بڑھ جاتا ہے۔ عجلت میں بھیجے گئے ان مضامین کی علمی اور حقیقی قدر و اہمیت ایک ثانوی امر رہ جاتی ہے اور بھوکے قارئین کی ہلکان مٹانا اول مقصد قرار پاتا ہے۔ا س کی ایک اور مثال مشاعروں میں مقبول شاعری کے معیار اور معیاری شاعری کے معیار کے فرق سے بھی لی جا سکتی ہے۔ کئی کے حوالہ جات اور اقتباسات تک درست نہیں ہوتے کیونکہ مدیران حضرات بھی اسیرِ قاعدہء عجلت ہیں بلکہ اس عجلت کو عجیب کاروباری انداز میں دوام بخشنے پر مستعد نظر آتے ہیں۔ اکثر مضمون نگار چونکہ اپنی نگارشات کا کوئی معاوضہ نہیں پاتے لہذا یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کیا شے انہیں اس کام پر مائل رکھتی ہے اور وہ محرکات بجائے خود کس قدر علمی ہیں؟ کیا ان کا قلم محض تعریف کے زور پر چلایا جاتا ہے یا پھر وہ عوام کے اذہان کے پیمانے سے اپنا علمی قد ناپتے رہنے میں خوش رہتے ہیں؟

کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون کا مضمون دیکھنے میں آیا جس میں انہوں نے رینکنگ کے مغالطوں پر روشنی ڈالتے ہوئے چند ان امور کی طرف اشارہ کیا جو اکثر اوقات لکھاریوں اور زیادہ تر قارئین کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ کیسے ایک ویب سائٹ اپنے ناظرین کا نمبر شمار کئی سو یا کئی ہزار سے شروع کر سکتی ہے۔ کیسے ایک کلک سے کئی ویوز بڑھ جاتے ہیں۔ کس طرح سنسنی خیز عنوانات اور متحیر کن تصاویر کا سہارا لیا جاتا ہے۔ لیکن اس سارے جھیملے میں اتنی ہی توجہ علمی پختگی کی طرف نہیں دی جاتی تاہم اس کے باوجود آن لائن اردو صحافت میں ہر وقت عظیم نظریات اور مہابیانیوں کی جنگ نظر آتی ہے۔ اللہ جانے دیوانے کی بڑ کا مفہوم اور کیا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس عاشقی میں ”عزتِ نظریات ”ضرور جا رہی ہے۔

ایک شے احترامِ علم بھی ہے

اس کا کچھ کچھ خیال تو رکھیے

آپ کو اپنی تمکنت کی قسم

کچھ لحاظِ جمال تو رکھیے

اسی گرم کارزاری میں مدیر محترم نے کسی صاحب کی جانب سے ایک مخصوص پنجابی لفظ کے استعمال کے بعد صحافتی اخلاقیات اور برداشت کا موضوع تازہ کیا جو ہمارے مضمون کے دوسرے حصے یعنی برداشت کی جدلیات کا عنوان بھی ہے۔ واضح رہے کہ یہاں لفظ جدلیات چند احباب کی سنت میں تصورات کے گورکھ دھندے کے وزن پر استعمال کیا گیا ہے۔ تصورات کی تاریخ کے دلدادہ حضرات کے لیے اس میں کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ ہمارے یہ احباب چند مارکسی بھائیوں کی جانب سے ہر شے پر گفتگو میں جدلیات ٹھونس دینے سے نالاں ہیں اور اب ان کے نزدیک یہ لفظ گورکھ تصورات کے مجہول اطلاق کے عرف عام کے طور پر مستعمل ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ افلاطون نے اس لفظ کو سفسطہ اور کانٹ نے گورکھ اور لاینحل تصورات کی منطق کے طور پر ہی برتا تھا تاہم ہیگل اور بعد ازاں مارکس نے اسے نئے معنی بخشے مگر اب احباب لاعلمی اور تفنن طبع کے طور پر ہی سہی اس کے قدیم معنی کا احیا کر رہے ہیں۔ ہم مدیر محترم سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ برداشت یا اخلاقیات نہ تو ماورائی ہیں نا خلا میں پیدا ہوتی ہیں بلکہ ایک مخصوص ماحول کی متقاضی ہوتی ہیں۔ کیا یہ ماحول جس کی ایک تصویر اوپر کھینچی گئی ایسا ماحول ہے جہاں الفاظ تک کے چناؤ پر اتفاق رائے یا اخلاقی اجماع پایا جائے؟ سوشل میڈیا بطور کل جس تفاعلی رابطے اور روبروئی کا نام ہے وہاں چند الفاظ سے بچاؤ کی اخلاقیات سکھانے کے دو ہی طریقے ہیں کہ یا تو تمام لوگ اس کو استعمال کرتے ہوئے واقعی علمی رویہ اپنائیں اور تربیت سے گزریں جو بوجوہ ناممکن نظر آتا ہے یا پھر ہر نفس اول منازل سلوک طے کرے تاکہ ضبط نفس میں مقام پیدا ہو اور پھر سوشل میڈیا پر آئے۔ یہاں برداشت کا اطلاق اور بھی وسیع ہے۔ ہم ان تمام دوستوں سے بھی برداشت پیدا کرنے کی استدعا کرتے ہیں جو ان تمام حالات کے باوصف سوشل میڈیا کو بے نہایت سنجیدہ جانتے ہوئے  ” لبرل طالبان ” کی اصطلاح سامنے آنے کو عظیم نظریاتی واقعہ قرار دے کر ناحق زود رنج بنے بیٹھے ہیں اور بحث گرم کیے ہوئے ہیں ۔ ہم ان ناراض اور بیزار نفسوں سے بھی برداشت کا تقاضہ کرتے ہیں جو سوشل میڈیا کی اس پوری ”نظریاتی مہابھارت” کو محض افسانہ سمجھتے ہوئے اس کی علمی صحت پر سوال اٹھا کر اپنا دل جلاتے رہتے ہیں۔ ہم اس رن میں ہر جانب کے گروہ سے برداشت کا تقاضہ کرتے ہیں کیونکہ معاملات انتہائی بے چہرہ اور الجھے ہوئے ہیں۔

اسی بے چہرہ جدال میں لبرل طالبان کے حوالے سے ایک اور سبق کہ جہاں محض ناظرین کی شماریات سے فوقیت ِ اخلاق تک ثابت ہو جائے وہاں بعید نہیں کہ ” ہم سب ” سے باہر کے کسی بھی دیگر لبرل سے آن لائن بحث کا نتیجہ یہ نکلے کہ لبرل طالبان کا مقولہ دریافت کر لیا جائے۔ سوشل میڈیائی لبرل ہوں یا اسلامسٹ یہ شاخ نازک پہ بنے وہ  ناپائیدار آشیانے ہیں جو ایک دوسرے کی جگہ لینے میں دیر نہیں لگاتے جس میں قصور ان کا نہیں اس آندھی کا ہے جو عجلت میں چلتی ہے اورجس کی ہوا میں یہ شاخ دن رات ڈولتی رہتی ہے اور جو آندھی خود سوشل میڈیا ہے۔ ہم تمام اطراف کے احباب کے حق میں تمنا رکھتے ہیں کہ ان کے قدم سرزمین علم پر مضبوطی سے ٹکے رہیں اور وہ اپنے آن لائن میڈیم یا ظرف و مکان کی حدود کو اپنے تخیل کا قید خانہ نہ بنا لیں۔

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے

عرش سے ادھر ہوتا کاشکے مکاں اپنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments