مسلم یونیورسٹیوں کے خلاف مودی کی جنگ


 \"asafنریندر مودی اور سنگھ پریوار کی آنکھوں میںمسلمانوں کے تعلیمی ادارے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی ہمیشہ سے بری طرح سے کھٹکتے رہے ہیں۔ آزادی کے بعد سے سنگھ پریوار کی یہ کوشش رہی ہے کہ ان دونوں تعلیمی اداروں کی مسلم حیثیت ختم کر دی جائے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو جو قوم پرست مسلمانوں نے قایم کی تھی اسے بھی نہیں بخشا جارہا ہے ، لیکن سب سے بڑا نشانہ علی گڑھ یونی ورسٹی ہے جو تحریک پاکستان میں پیش پیش رہی ہے ۔اس کے طلبا قائد اعظم پر جان چھڑکتے تھے اور مسلم لیگ کے سورما مانے جاتے تھے جنہوں نے صوبہ سرحد اور سلہٹ میں پاکستان میں شمولیت کے حق میں ریفرنڈم لڑے اور فتح یاب رہے۔ قیام پاکستان کے سلسلہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اس رول کی وجہ سے دشمنی کے علاوہ سنگھ پریوار کا نظریاتی منبع راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ ،مسلمانوں کے ورثہ کوملیا میٹ کرنے کے لئے اور مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے درپے رہا ہے اور کوشش اس کی مسلم اقلیتی حیثیت کے خاتمہ کی رہی ہے ۔ جہاں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کا تعلق ہے تو یہ مولانا محمد علی جوہر اور گاندھی جی کی قیادت میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے باغی طلباءنے علی گڑھ میں قایم کی تھی اور بعد میں دلی منتقل ہوگئی تھی ۔اس کے قوم پرست تعلیمی نظریہ کے باوجود سنگھ پریوار جامعہ کے اسلامی تشخص کے سخت خلاف رہا ہے اور اس کی بھی اقلیتی حیثیت ختم کرنے کے لئے بے تاب ہے۔علیگڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ کی مسلم حیثیت ختم کر کے مقصد ان دونوں تعلیمی اداروں پر قبضہ کرنا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے کسی فرد کو ان کا وائس چانسلر مقرر کرنا ہے اور عملی طور پر ان تعلیمی اداروں پر مسلمانوں کا کنٹرول ختم کر کے مسلم طلباءکو ان اداروں میں داخلہ کی سہولتوں سے محروم کرنا ہے ۔ اس مقصد کے لئے مودی سرکار نے عیارانہ چال چلی ہے۔

2004 ءمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے میڈیکل کورسز میں داخلہ کے لئے مسلمانوں کی 50فیصد نشسیں مخصوص کی تھیں ۔ 2005میں اس فیصلہ کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، اس درخواست پر ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ مسلم طلباءکے لئے مخصوص کوٹہ غیر آئینی ہے۔ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کی حکومت اور یونیورسٹی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی جس میں یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت ہے اور یہ یونیورسٹی مسلم طلباءکے لئے قایم کی گئی تھی۔

نریندر مودی کی حکومت کے اٹارنی جنرل مکل ویاتگی نے سپریم کورٹ میں حال میں یہ بیان دیا ہے کہ حکومت کا موقف یہ ہے کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی یونیورسٹی نہیں ہے ۔ حکومت کے نزدیک ایک سیکولر مملکت میں کوئی اقلیتی ادارہ قایم نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کی یہ دلیل ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 1920پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت ، محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے معرض وجود میں آئی تھی اور 1951کے ترمیمی قانون کے تحت اس میں اسلامی دینیات کی لازمی تعلیم ختم کر دی گئی تھی ۔

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے سامنے جو درخواست پیش کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ حکومت اب عدالت کے فیصلہ کو چیلنج نہیں کرے گی۔ اس پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال نے پوچھا کیا حکومت کے موقف میں یہ تبدیلی ، حکومت کی تبدیلی کی وجہ سے آئی ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پچھلا موقف غلط تھا اور سپپریم کورٹ کے 5 ججوں کے بینچ نے اکتوبر 67میں جو فیصلہ دیا تھا وہ صحیح تھا کہ یونی ورسٹی ایک اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ یونیورسٹی کے وکیل پی پی راو کا استدلال تھا کہ ایک حکومت ( انتظامیہ) پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایکٹ کو خراب نہیں قرار دے سکتی اور علی گڑھ یونیورسٹی بدستور ایک اقلیتی تعلیمی ادارہ ہے۔

ویسے علی گڑھ یونیورسٹی کے مسلم تشخص اور اقلیتی تعلیمی ادارے کی حیثیت پر یہ پہلا حملہ نہیں، اس سے پہلے 1965میں اس پر کاری حملہ کیا گیا تھا جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباءکے احتجاج کے دوران یونیورسٹی کے وایس چانسلر علی یاور جنگ طلباءکے ہلہ میںشدید زخمی ہوگئے تھے۔ اس زمانہ کی کانگریس کی سرکار کے وزیر تعلیم محمد علی کریم چھاگلا نے اس واقعہ سے فایدہ اٹھاتے ہوئے ، یونیورسٹی کی خود مختار حیثیت اور اس کی اقلیتی حیثیت کے خاتمہ کی ٹھانی اور ایک آرڈننس کے ذریعہ مسلم یونیورسٹی کا آئیں معطل کر دیا۔

یہاں یہ وضاحت کرنی مناسب ہوگی کہ محمد کریم چھاگلا ، بمبئی میں قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تھے اور مسلم لیگ کے رکن تھے ، لیکن جب قائد اعظم نے پاکستان کی تحریک شروع کی تو چھاگلا نے قائد اعظم سے قطع تعلق کر لیا اور ایک الگ سیاسی جماعت ، مسلم نیشنلسٹ پارٹی کے نام سے قایم کی ۔ چھاگلا بمبئی ہائی کورٹ کے جج اور بعد میں چیف جسٹس رہے۔ بمبئی کی ریاست کے گورنر، امریکا میں ہندستان کے سفیر، لندن میں ہائی کمشنر، بین الاقوامی عدالت کے جج رہنے کے بعد 1963میں وزیر تعلیم مقرر ہوئے تھے۔ ہندوستان کے مسلمان اس وقت ششد ر رہ گئے جب انہیں پتہ چلا کہ انہیں ان کی مرضی کے مطابق دفن کرنے کے بجائے ان کی میت نذر آتش کردی گئی ہے ۔

چھاگلا کے آرڈننس نے جب قانون کی صورت اختیار کی تو اس میں یونیورسٹی کے سارے اختیارات وایس چانسلر اور ایگزیکٹو کاﺅنسل کو دے دئے گئے۔یوں عقبی دروازہ سے یونیورسٹی پر حکومت نے قبضہ کر لیا کیونکہ وایس چانسلر اور ایگزیکٹو کاﺅنسل کے اراکین صدر مملکت مقرر کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کی کورٹ بے اختیار کر دی گئی اور اس کی حیثیت محض مشاورتی ادارہ کی رہ گئی۔ اس قانون کو جب سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو عدالت نے اس قانون کو جائز قرار دے دیا۔

مسلمانوں کا یہ تعلیمی ادارہ 1873میں سر سید نے مسلمانوں کو پسماندگی سے نکا ل کر انہیں جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے قایم کیا تھا۔ آغاز اس کا ہائی اسکول سے ہوا تھا اور بعد میں اس نے محمڈن اینگلو اورینٹیل کے نام سے کالج کی صورت اختیار کی۔ 1911میں یہ کالج یونیورسٹی کے طور پر ابھرا۔ اور 1920ءمیں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کی رو سے یہ باقاعدہ یونیورسٹی تسلیم کی گئی۔

نریندر مودی کی سرکار کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ یہ یونیورسٹی 1920 کے ایک ایکٹ کے تحت معرض وجود میں آئی ہے اور کسی مسلم فرد یا ادارے نے قایم نہیں کی اس لئے اسے مسلمانوں کا ادارہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور اسے اقلیتی ادارے کی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ اپنی فنی نوعیت کی دلیل کو وزنی قرار دےنے کے لئے اس یونیورسٹی کی 1873سے لیکر 1920تک کی پوری تاریخ مسترد کر دی گئی۔ اور خود ہندوستان کی حکومت کے دعوی کو جھٹلا دیا گیا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قابل فخر درخشاں مسلم ادارہ ہے۔ جون 1964ءمیں حکومت ہند کی وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے بیرونی دنیا میں تقسیم کرنے کے لیے Muslims in Indiaکے نام سے ایک پمفلٹ شایع کیا گیا تھا جس میں علی گڑھ یونیورسٹی کو ہندوستان میں سب سے قدیم مسلم تعلیمی ادار ہ قرار دیا گیا تھا۔

زمانہ بدل گیا اور حکومت بھی بدل گئی جو کٹر ہندو قوم پرست نعرہ ہندووتا کے نام پر مسلمانوں کے تاریخی ورثہ کوملیا میٹ کرنے پر تلی ہوئی ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مسلم تشخص کو مٹانے کے درپے ہے۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments