امریکہ کا سعودی عرب کی طرف جھکاؤ کیوں؟


اس ہفتے خلیج فارس سے متعلق امریکی انتظامیہ کی پالیسی میں تبدیلی کو ریکس ٹلرسن نے صرف ایک دوپہر میں واضح کر دیا۔ بدھ کی دوپہر وہ امریکہ اور سعودی عرب کی مشترکہ سی ای او سربراہ کانفرنس میں دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون پر زور دے رہے تھے۔ یہ کانفرنس امریکی چیمبر آف کامرس نے منعقد کی اور اس میں سرمایہ کاری اور تجارت بڑھانے کے لیے کونسلر سطح پر مدد فراہم کرنے کے وعدے کیے۔

کچھ ہی گھنٹوں بعد انہوں نے ایران کا شمالی کوریا سے موازنہ کیا اور ایران کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اُن کی “پریشان کن اور اشتعال انگیزی” کی وجہ سے یمن، عراق، شام اور لبنان میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایران کی جانب سخت پالیسی اور سعودی عرب کی طرف جھکاؤ اُس وقت سے بڑھ رہا تھا جب فروری میں اس وقت امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن نے تہران کو تنبیہ کی تھی۔

سعودی عرب میں اس اہم تبدیلی پر جوش و خروش پایا گیا اور تعلقات میں بہتری کا خیر مقدم کیا گیا۔ براک اوبامہ کے دور میں سعودی مخالف شعیہ طاقت کے ساتھ جوہری معاہدے اور یمن میں جاری جنگ میں شمولیت تعلقات میں کشیدگی کی وجہ تھے۔

وزیر دفاع اور ایران مخالف جیمز میٹس نے اپنے ریاض کے دورہ پر نئی پالیسی کو مزید تقویت دی اور بدھ کو بھی ایک بار پھر ایسا ہی ہوا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’ایران کی شرانگیزی کے خلاف سعودی عرب کی مزاحمت کو مضبوط کیا جائے‘ اور اپنے سعودی میزبان کی طرح ’خطے میں جہاں بھی بدامنی ہے‘ اس کے پیچھے ’بدخواہ‘ ایران کا ہاتھ دیکھا۔

اس سب کا مطلب کیا ہے؟

سب سے پہلے تو ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے معاہدے پر مستقبل میں عملدر آمد غیر یقینی ہوگیا ہے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ اس معاہدے کو باقاعدہ ترک کرنے کے بجائے امریکی انتظامیہ کا تہران پر دباؤ اس کی ناکامی کی وجہ بنے۔ دوسری بات امریکہ کی یمن میں خانہ جنگی میں شمولیت ہے جس میں اقوام متحدہ کے مطابق دس ہزار شہری ہلاک جبکہ ایک کروڑ سات لاکھ فاقہ کشی کے شکار ہونے کے قریب ہیں۔

اس وقت امریکہ سعودی اور متحدہ عرب امارات پر مبنی اتحاد کی بالواسطہ مدد کر رہا ہے جو حوثی باغیوں سے لڑ رہا ہے جنہیں ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اوبامہ انتطامیہ نے سعودی اتحاد کی بلا امتیاز فضائی بمباری کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سے سعودی اتحاد کو فراہم کی جانی والی مدد میں کمی کی تھی ۔

اب ٹرمپ انتطامیہ صدر اوبامہ کی جانب سے میزائیل کی فروخت پر پابندی اُٹھانے کا سوچ رہی ہے۔ ایک امریکی اہلکار جو جنرل میٹس کے ہمراہ سفر پر ہیں انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے خیال میں حوثی مذاکرات پر تب ہی راضی ہونگے جب ان پر فوج کی جانب سے دباؤ ڈالا جائے گا۔ سعودی عرب کا نظریہ بھی یہی ہے۔ در حقیقت ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی اور اماراتی نقطہ نظر کو اپنے پیشرو سے کہیں زیادہ اپنایا ہے جس کے مطابق ایران حوثی باغیوں کی پراکسی جنگ میں پشت پناہی کر رہا ہے اور انہیں ہتھیار فراہم کر رہا ہے تاکہ خلیج کے سنی ممالک پر اِن کا اثر و رسوخ بڑھے۔

پچھلی چھ دہائیوں سے امریکہ نے خطے کی طاقتوں میں جاری رسہ کشی میں کسی کو سبقت حاصل نہیں کرنے دی اور تیل کی دولت سے مالامال خلیج میں اپنی طاقت کو برقرار رکھا ہے۔ ایران میں 1979 کے انقلاب کے بعد امریکہ نے تہران کو کنٹرول کرنے کے لیے سنی عرب ممالک کے ساتھ اتحاد قائم رکھا ہے۔

صدر اوبامہ نے اس توازن کو اس امید پر تبدیل کرنے کی کوشش کی کہ ایران میں اعتدال پسند قوتوں کو تقویت ملے اور وہ خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو بحال کرسکیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے نہ صرف اس پالیسی کو رد کیا ہے بلکہ اس کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کو قابو میں لانے کے بجائے اس سے ٹکر لینے کے اشارے دیے ہیں۔

)باربرا پلت آشر(


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp