مجھے ’ہم سب ‘ پرمولانا کا انٹرویو کیوں اچھا لگا؟


میں ایک عام سا قاری ہوں۔ ’ہم سب ‘پر چھپنے والے آرٹیکل پر بھی نظر ڈالتا ہوں اور ’دلیل‘کے آرٹیکلز پر بھی۔ میں ایک قاری کی حیثیت سے دونوں میں تنوع نہیں پاتا۔ تنوع کا رشتہ تخلیقی عمل سے بہت قریب کا ہے۔تنوع ایک جیسی صورتِ حال ،ایک جیسی فضا کو توڑتا ہے اور نئے جہانوں کی اور لے جاتا ہے۔ ہمارے اخبارات کے مواد، ہمارے ٹیلی ویژن کے پروگرامز میں تنوع نہیں ،اسی کا شکار مختلف ویب سائٹس بھی ہیں۔ہم تعلیمی نصاب کا رونا روتے ہیں کہ اُس میں تنوع اور مکالمے کا فقدان ہے، یوں ہماری تعلیم سوالات کھڑے نہیں کرتی ، جو اس کا بنیادی وصف ہے، لیکن یہ معاملہ تعلیم تک ہی محدود نہیں، میڈیا میں بھی ایسا ہی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہر لکھنے والا، چاہے وہ جس سوچ ،عقیدے اور فکر کے تابع ہے، زندگی کو خوب صورت بنانے کے لیے لکھتا ہے۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ بہت سارے لکھنے والوں کی تحریریں زندگی کو خوب صورت بنانے کی بجائے، بدصورت بنا ڈالتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟اس کی کئی وجوہات ہیں۔ وہ اس احساس کے زیر اثر ہوتا ہے کہ اس کا سوچنا، لکھنا،غوروفکر کرنا، پڑھنا، ہی درست عمل ہے۔ حالانکہ وہ یک رُخے عمل کا اسیر ہوتا ہے۔ میری نظر سے ایک مذہبی فرقے کی کتاب گزری جس کے دیباچے میں رقم تھا کہ ’اس عقیدے کے ماننے والے دوسرے عقیدوں کی کتب کو نہ پڑھیں‘ اگر وہ ایسا کریں گے، تو اُن کا عقیدہ خراب ہوگا۔ اب جو کچھ اُس کتاب میں درج ہے، وہ اُس گروہ کے لیے تو زندگی جیسا ہے لیکن مختلف نقطہ نظر کے حاملین کے لیے اُس تحریر میں کچھ خاص نہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ہر گروہ چاہے وہ کسی بھی سوچ اور نظریے کا پیروکار ہو، اُسی سوچ اور نظریے سے متعلق لٹریچر پڑھتا اورسنتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ سوچ اور نظریہ اس قدر راسخ ہو جاتا ہے کہ انتہا پسندی کا حامل ٹھہر جاتا ہے۔انہی وجوہات کی بنا پر مکالمے کی راہ بھی ہموار نہ ہو سکی۔ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ ہمارا سماج ابھی تک مکالمے کی سطح تک بھی نہیں پہنچا۔ حالانکہ یہ سب کو سمجھنا چاہیے کہ زندگی کو خوب صورت بنانا ہے تو مکالمہ ضروری ہے۔ مکالمہ زندگی کو آگے بڑھاتا ہے،اس لیے کہ یہ ملکیت کے تصور کا دشمن ہے۔ میرا نظریہ…. میری سوچ…. میرا عقیدہ…. مکالمہ ان کو روندتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ برتری کا احساس معدوم ہوگا تو دوسروں کی ذات پر یقین کا راستہ نظر آئے گا؟ مکالمے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ ہم آہنگی کو جنم دیتا ہے، تضادات کا خاتمہ کرتا ہے۔

تنوع اور مکالمے کے فقدان کانتیجہ یہ بھی ہے کہ شاعر کی کتاب چھپتی ہے تو وہ شاعر کے پاس پہنچتی ہے، افسانہ نگار، افسانہ نگار کو کتاب بھیجتا ہے، نقاد کی کتاب، نقاد ہی خریدتا ہے، تعلیم پر لکھی گئی کتب ، تعلیم سے وابستہ افراد کو بھیجی جاتی ہیں، ایسی صورتِ حال میں بات آگے کیسے بڑھے گی؟ کتنے شاعر ایسے ہیں جو افسانہ اور ناول پڑھتے ہیں اور کتنے افسانہ نگار اور ناول نویس ایسے ہیں جو غزلوں کے مجموعے خریدتے ہیں؟ اسی طرح ایک شخص نے مجھے کہا کہ میں غامدی کی گفتگو نہیں سنتا اور اوریا مقبول جان کو بس پڑھتا ہوں، دوسرے نے کہا کہ میں نے آج تک اوریا اور ہارون رشید کو نہیں پڑھا، میں اخبار میں صرف لال خان کو پڑھتا ہوں۔میں نے ایک بار اپنے دوست کا آرٹیکل فیس بک پر شیئر کر دیا، کچھ دوستوں نے میسجز کیے کہ یہ کیا کردیا؟یہ بندہ تو انتہائی مذہب پسند رائٹر ہے۔

ایک تقریب سے واپسی پر مجھ سے ایک بندے نے پوچھا کہ ’تم خدا پر یقین رکھتے ہو، نیز یہ کہ تم لبرل ،سیکولر، یا مذہب پسند ہو؟‘ اُس دِن میں نے یہ سوچا کہ میری شناخت کے یہی حوالے ہیں؟ میرے کچھ دوست اپنی تحریروں میں مذہب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور کچھ جدت پسندی اور روشن خیالی کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں ۔میرا خیال ہے کہ ہر دو پاکستانی سماج کو سمجھے بنا ایسا کرتے ہیں ۔میں جنوبی پنجاب کے ایک دُورافتادہ گاﺅں میں گیا ،جو محض چند نفوس پر مشتمل تھا، وہاں کچی اینٹوں کی مسجد مجھے دکھائی دی اور اُسی جگہ ایک بھیڑ بکریاں چرانے والا بھی ملا جس کو کلمہ تک نہیں آتا تھا۔

مجھے محض یہ کہنا ہے کہ’ ہم سب‘ پر لدھیانوی صاحب کے انٹرویو کے بعد جو ’اختلافی نوٹ‘تحریر ہوئے، اُن سب کا احترام کرتا ہوں۔ میں بس اتنا کہتا ہوں کہ ہر سوچ کو سپیس دینی چاہیے۔ یہیں سے مکالمے کا درکھلے گا۔ ہم سب زندگی کو خوب صورت بنانے کے لیے لکھتے ہیں ،اگر ہم سمجھتے ہیں کہ فلاں کی تحریریں یا اُن کا عمل زندگی کو بدصورت بنا رہے ہیں، اُن سب سے مکالمہ کی صورت پیدا کی جائے۔ ایسے لوگوں کو اُن کے دائرے تک محدود نہ رکھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).