لمحہ لمحہ مرتے پاکستانی اورہماری اشرافیہ


اپنے ملک کی سیاسی و مذہبی اشرافیہ حکومتی و فوجی الیٹ سے یہ سوال اٹھانا بنتا ہے کہ جس ملک کی اکثریتی آبادی کو پینے کا صاف پانی، پیٹ بھر کر کھانے کو روٹی، بیمار پڑ جائیں تو علاج معالجے کی سہولت،رہنے کو ذاتی چھت، اور جہالت کے اندھیروں سے باہر نکلنے کے لئے تعلیمی ادارے میسر نہ ہوں اور مندرجہ بالا ’کیٹگری‘ پرتعیش زندگی گزار رہی ہو بلکہ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کردہ پیسوں سے عوام کے ہی باعزت جینے کے راستے بند کرنے کے لئے سکیورٹی کے نام پر دن کو سڑکوں اور رات گئے جب لوگ سو رہے ہوتے ہیں ، پوچھ تاچھ کے نام پر ان کے گھر وں میں تانکا جھانکی کرنے پر انہیں ہڑ بڑا کر اٹھنا پڑتا ہو تو یہ عوام پھر کہاں جائیں؟

مذہبی اشرافیہ کو تو خیر چھوڑئیے کیونکہ انہوں نے تو عوام کو خدا کے کھاتے میں ڈال رکھا ہے اور یہ باور کرا رکھا ہے کہ غربت و امارت کا تعلق بھی خدا کی جانب سے ہی ہے۔ لیکن عمران خان کی جماعت ملک کی ایک بڑی جماعت ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت رکھنے کے ساتھ اپوزیشن کا کردار بھی ادا کررہی ہے کیا اس جماعت کے کسی صوبائی عہدے دار یا لیڈر آف دی اپوزیشن نے اسمبلی کے فلور پر عوام کے ان مسائل پر بات کی ،کوئی ریزولیشن پیش کی یا کوئی بل ڈرافٹ کیا۔ جن مسائل نے عوام کا سانس لینا محال کر رکھا ہے، کوئی بڑا جلسہ ہی منعقد کیا ہو جس میں عوامی مسائل کو ایشو بنایا ہو، مجھے پی ٹی آئی کی ’خاکستر‘ میں کوئی ایسی چنگاری نظر نہیں آئی۔ اگر آپ نے کوئی جگنو جلتا دیکھا ہو تو میری تصحیح کر دیجیے گا۔ جبکہ گزشتہ پونے چار سال میں یہ جماعت ایک صوبے میں مکمل حکمران ہے اور باقی صوبوں میں بھی کافی حصہ وصول کرتی ہے لیکن ابھی تک کی ’نیٹ‘ کارکردگی اس جماعت کی بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد جن میں مخالفین کو دشنام تراشی کے ساتھ گالی گلوچ کا کلچر ہی متعارف ہوتا نظر آیا ہے کیا دنیا بھر کے مہذب ممالک میں سیاسی جماعتوں کا یہی کردار ہے؟ اسی طرح دیگر جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی وغیرہ کا کردار رہا ہے۔

حکمران اشرافیہ کے اپنے ہی مسائل حل ہوتے نظر نہیںآتے کہ وہ عوام کی جانب دیکھے باقی رہی ’بڑی اشرافیہ‘ تو اسے ملکی اور اندرونی سرحدوں کو خطرے سے بچانے سے ہی فرصت نہیں اس لئے مندرجہ ذیل رپورٹوں پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انسانیت کے ساتھ کچھ دلچسپی رکھنے اور اس کی بہتری چاہنے والے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں روزانہ 400 افراد ہیپاٹائٹس کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔ سالانہ کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ تعداد قریباً ڈیڑھ لاکھ بنتی ہے۔ ان میں وہ مریض بھی شامل ہیں جو ہیپا ٹائٹس کے باعث لاحق ہونے والی دیگر بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ہیپا ٹائٹس دراصل جگر کی سوزش ہے جو جراثیموں کے علاوہ مختلف قسم کی دواوں، موٹاپے، اور شوگر سے بھی لاحق ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہیپا ٹائٹس کے مریضوں کی تعداد قریباً 10 لاکھ ہے۔ ہیپا ٹائٹس کی کئی مختلف اقسام ہیں، جن میں ہیپا ٹائٹس اے، بی، سی اور ای زیادہ مشہور ہیں۔ ہیپا ٹائٹس اے اور ای آلودہ پانی اور غذا جبکہ بی اور سی عموماً انتقال خون کے ذریعے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہیپا ٹائٹس بی اور سی کا تناسب دس فیصد ہے جو خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ دنیا میں ہیپا ٹائٹس کی وجہ سے ہونے والی بیشتر ہلاکتیں اس بیماری کی بی اور سی اقسام کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔یہ مرض جگر کو شدید نقصان پہنچاتا ہے اور جگر کے کینسر کی وجہ بھی بنتا ہے۔ پاکستان کی مجموعی آبادی کا 6 فیصد ہیپا ٹائٹس سی جبکہ 2.8 فیصد ہیپا ٹائٹس بی میں مبتلا ہے۔ ہمارے ہاں یہ بیماری 25 سے 50 برس تک عمر کے 18 فیصد شہریوں میں پائی جاتی ہے جو بہت بڑی تعداد ہے۔ پاکستان میں عموماً یہ بیماری خون کے تبادلے، استعمال شدہ سرنجوں، آلودہ پانی اور کھانے پینے کی بازاری اشیا سے پھیلتی ہے۔ بیشتر لوگ روزمرہ زندگی میں عدم احتیاط کے باعث ہی اس بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ایک ہی ریزر سے کئی لوگوں کے شیو کرنے، ایک ہی تولیے، مسواک یا ٹوتھ برش کے استعمال سے بھی ہیپا ٹائٹس پھیلتا ہے۔

بہت سے لوگ اس بات سے ہی لاعلم ہوتے ہیں کہ انہیں ہیپا ٹائٹس ہے۔ اگر انہیں علم ہو بھی جائے تو علاج اتنا مہنگا ہوتا ہے کہ یا تو مریض سرے سے علاج کرواتا ہی نہیں یا پھر علاج نامکمل چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دنیا میں 40 کروڑ افراد کو ہیپا ٹائٹس بی اور سی لاحق ہے۔ 2000 کے مقابلے میں اب تک اس مرض کے سبب ہلاکتوں میں 14 فیصد اضافہ ہو چکا ہے عالمی ادارہ صحت نے ہیپا ٹائٹس کے حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اس وقت دنیا میں 40 کروڑ افراد کو ہیپا ٹائٹس بی اور سی لاحق ہے۔ یہ تعداد ایڈز کا سبب بننے والے ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ انسانوں کی تعداد سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ ہیپا ٹائٹس میں مبتلا بہت سے لوگوں کو جگر کی بیماریوں، کینسر اور قبل از وقت موت کے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ 2015 میں ہیپا ٹائٹس کے سبب دنیا میں ہلاکتوں کی تعداد 13 لاکھ 40 ہزار تھی۔ یہ تعداد ایچ آئی سے ہونے والی ہلاکتوں سے قریب ہے۔ ہیپا ٹائٹس کے وائرس سے متاثر ہونے کی عام طور پر کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں تاہم اگر ہیپا ٹائٹس بی اور ہیپا ٹائٹس سی کا علاج نہ کیا جائے تو یہ جگر کی خرابی اور کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وائرس کا شکار ہونے والے محض نو فیصد افراد کو اس میں مبتلا ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ ہیپا ٹائٹس بی سے بچاو کے لیے ویکسین موجود ہے جبکہ ہیپا ٹائٹس سی سے بچاو کے لیے ابھی تک کوئی ویکسین تیار نہیں ہو سکی۔

اسی طرح دیگر مسائل اور بیماریاں ہین جن میں عوام گھٹنے گھٹنے دھنسے ہوئے ہیں بلکہ ہم تو ابھی تک ان 9 جان لیوا بیماریوں پر بھی قابو نہیں پا سکے جن پر دنیا قابو پا چکی ہے۔ ہمارے ہاں بیماریوں کی وجوہات جاننے اور ان کے سدباب کے حوالے سے ریسرچ بیس سائنسی لیبارٹریاں ہی موجود نہیں بلکہ مرض کی تشخیص کے لئے جو کلینیکل لیبارٹریاں موجود ہیں ان کا معیار اتنا گھٹیا ہے جن کی جاری کی ہوئی رپورٹوں پر آئے روز واویلا ہوتا ہے لیکن ہماری مندرجہ بالا ایلیٹ جو ہماری حاکم ہے پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

چلتے چلتے عمران خان کے اس بیان پر کچھ بات ہو جائے جو انہوں نے حکومت کے حوالے سے کہی ہے کہ پانامہ کیس میں خاموش رہنے پر انہیں دس ارب روپے کی آفر کی گئی تھی۔ لگتا ہے پے در پے ناکامیوں نے خان صاحب کی عقل ہی سلب کر لی ہے ورنہ اس طرح کا بیان کوئی ذی ہوش آدمی نہیں دے سکتا کہ حکومت کو جب پتا ہو کہ ایک ایسا آدمی جس کی سیاسی زندگی کا دارو مدار ہی حکومت مخالفت بلکہ شریف خاندان کو کرپٹ ثابت کرنے پرہو، ایسی حکومت اتنی بے وقوف ہے کہ وہ عمران خان جیسے’لاﺅڈ‘ کو یہ آفر کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو عمران خان کے اس بیان کو عدالت میں لے کر جانا چاہیے کیونکہ بہتان تراشی کا قلع قمع صرف اسی صورت ہو سکتا ہے کہ جھوٹے الزام لگانے والوں کو عدالتوں میں چیلنج کیا جائے جہاں سے انہیں بھاری جرمانے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).