مان میرا احسان


زندگی سے مایوس افراد کے لیے خوشخبری۔ تبدیلی آ نہیں رہی، آگئی ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔

کل تک احسان اللہ احسان پاکستان کے جانی دشمن طالبان کے ترجمان تھے۔ آج پاکستان کا پورا میڈیا احسان اللہ احسان کا ترجمان بن گیا ہے۔ ان کی حب الوطنی کا دیوانہ ہے۔ ان کی قاتلانہ مسکراہٹ کے پیچھے اپنے بچوں کا خون معاف کرنے کو تیار ہے۔

لیکن میڈیا کا ایک ادنیٰ مزدور ہوتے ہوئے مجھے یہ تشویش ہے کہ میڈیا احسان اللہ احسان کی ترجمانی کرتے ہوئے اس پروفیشنلزم کا مظاہرہ نہیں کر رہا جس طرح کی پروفیشنلزم کا مظاہرہ احسان اللہ احسان نے طالبان کے ترجمان کے طور پر پورے دس سال کیا۔

تو میڈیا کے بھائیوں کے لیے چند گزارشات یا جیسا کہ آج کل کہا جاتا ہے، کچھ ٹاکنگ پوائنٹس کہ جب ہمارے نئے نیلسن منڈیلا احسان اللہ احسان کا ذکر آئے تو مندرجہ ذیل باتیں کرنا نہ بھولیں، آپ کا ملک و قوم پر بڑا احسان ہو گا۔

نام ہی سے شروع کر لیں۔ جب بھی کوئی تحریک میں شامل ہوتا تھا یا اب کہنا چاہیے کہ دہشت گرد تھا، تو اپنا نام بدل کر کوئی مولانا، کوئی ابو فلاں فلاں، تو کوئی خراسان سے جوڑتا تھا کوئی قرون اولیٰ کے جنگجوں کا نام اختیار کرتا تھا۔ آپ کا بھائی لیاقت علی سے احسان اللہ احسان بن گیا۔

کیا کسی دہشت گرد کا اتنا شاعرانہ اور باتخلص نام سنا ہے؟ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ پاکستان کی کسی گلی میں گٹر ہو نہ ہو، شاعر ضرور ہوتا ہے جس کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ تو میں بھی اس ناقدری سے تنگ آ کر تحریک میں شامل ہو گیا۔ لیکن آپ کو پتہ ہے شاعروں کے ساتھ ہر جگہ زیادتی ہوتی ہے، تو مجھے لگا دیا گیا پریس ریلیز لکھنے پر، ای میلز بھیجنے اور ٹوئٹر پر ہلکی پھلکی دھمکیاں دینے پر۔

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا آپ بھی سارا دن دفتر میں بیٹھ کر یہی نہیں کرتے؟ ہاتھ ابھی دل پر ہی رہنے دیں اور یہ بتائیں کہ گذشتہ دس سال میں جب دھماکوں میں آپ کے بچے وغیرہ مرتے تھے تو آپ سب سے پہلے کس کو ڈھونڈتے تھے؟ اپنے اس بھائی کو اور میں آپ سے ہمیشہ تعاون کرتا تھا اور آج آپ کی باری ہے تو آپ تعاون جاری رکھیں۔ یہ وقت احسان فراموشی کا نہیں ہے۔ (کہا تھا نا طبیعت شاعرانہ بنے بنا رہا نہیں جاتا)

سوال کرنا آپ کا حق بنتا ہے آپ ضرور پوچھیں ۔ آپ کہیں گے واہگہ بارڈر پر پاکستانی شہریوں اور بچوں کا قتل عام کر کے اسلام کی کون سی خدمت کی۔ جب یہ دھماکہ ہوا تو چند گز کے فاصلے پر ہمارے بھارتی دشمنوں کا ایک ہجوم یہ ہولناک منظر دیکھ رہا تھا۔ سوچیں ان کے دل کیسے دہل گئے ہوں گے۔ کیا انھوں نے یہ نہیں سوچا ہو گا کہ جو مجاہد اپنے ہم وطنوں، ایک ہی خدا کے ماننے والوں کو اتنی بے دردی سے مارتے ہیں وہ اپنے کافر دشموں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔

کوئی پوچھے گا کہ ایسٹر کے دن لاہور میں معصوم لوگوں کا قتل عام کیوں کیا جو بچوں کے پارک میں اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ آپ پھر دل پر ہاتھ رکھیں اور مجھے بتائیں کہ ایسٹر ہوتا کیا ہے؟ اس ملک میں منایا کیوں جاتا ہے؟ کیا ہم نے یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں پر ایسٹر منایا جا سکے؟ کوئی پھر کہے گا کہ آپ کا نشانہ کوئی بھی رہا ہو مارے تو زیادہ مسلمان گئے۔ فروعی معاملات میں نہ الجھیں یہ سوچیں کہ زیادہ دہشت زدہ کون ہوئے۔ مسلمان یا یہود و نصاریٰ۔

اب آپ میں سے کسی کو ملالہ یاد آجائے گی۔ تو اس کے بارے میں ہمارے ایک سینیئر کمانڈر کہہ چکے ہیں اس کا معاملہ اب ہم نے اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ لیکن آپ جو ملالہ کے اتنے فین بنتے ہیں تو وہ پوری دنیا میں گھومتی ہے، اقوام متحدہ، کینیڈا کی پارلیمان سے خطاب کرتی ہے۔ آپ اسے سوات یا اسلام آباد کی گلیوں میں نہیں گھومنے دے سکتے تو اپنی پارلیمان میں بلا کر ایک تقریر کروا لیں؟ ہم میں اور آپ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت علی کا قول ہے جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔

مجھے دہشت گرد کہنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں کیا ہوتا تھا۔ کیا شمالی آئرلینڈ کے دہشت گرد بعد میں حکومت میں نہیں بیٹھے، وزیر نہیں بنے اور وہ تو اتنے مستند دہشت گرد تھے کہ برطانوی ٹیلی ویژن پر نہ ان کی تصویر آ سکتی تھی نہ آواز۔ آپ میں سے کوئی کہے گا لیکن شمالی آئرلینڈ کے دہشت گرد سکول کی وین روک کر سکول جاتی بچی کا نام پوچھ کر اس کے منہ پر گولی نہیں مارتے تھے۔ تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ شمالی آئرلینڈ والوں کے ایمان اتنے مضبوط نہیں تھے جتنے ہمارے مجاہد بھائیوں کے۔

آپ پوچھیں گے اب کیوں خیال آیا؟

میں کہوں گا کہ میرے میڈیا والے بھائیو! آپ میں کون ہے جو اپنے مالک کو منہ بھر کے گالی نہیں دیتا لیکن اکاؤنٹ میں جب تنخواہ آتی ہے تو سب بھول جاتے ہیں۔ اور جب کہ میں نے ویڈیو میں عرض کیا تھا، ایک کمانڈر صاحب نے تین تین بیویاں رکھ چھوڑی ہیں۔ ایک اور اپنے استاد کی بیٹی کو لے گیا، میرے مقدر کی سیاہ راتوں کا ساتھی کون؟ پریس ریلیزیں اور ٹوئٹر۔ تو میں نے بھی سوچا:

آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

آپ نے ابھی تک اچھا ویلکم دیا ہے آئندہ بھی تعاون کریں۔ کل ہی ہمارے سابق صدر سپہ سالار اور دائمی چُک کے مریض پرویز مشرف فرما رہے تھے کہ اس ملک میں بڑے بکرے بچ جاتے ہیں اور چھوٹوں کی قربانی ہو جاتی ہے۔ میں پرویز مشرف جتنا بڑا بکرا بننے کا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتا لیکن آپ تمام بھائیوں کا تعاون رہا تو اتنا چھوٹا بھی نہیں رہوں گا۔

پیار محبت کے اس ماحول میں اویس توحید جیسے صحافیوں کی بات مت سنیں جو کہتے ہیں میں نے انھیں گولی مارنے کی دھمکی دی تھی۔ اویس بھائی ویسے بھی جمہوری سوچ رکھتے ہیں۔ اگر وہ قوم جس نے اپنے بچے گنوائے ہیں وہ معاف کر دے گی تو اویس بھائی کا دل تو ویسے بھی نرم ہے۔

اور اگر ٹی وی پر میری گزارشات کو زیادہ دل گداز بنانا مقصود ہو تو بچپن میں ایک گانا سنا تھا وہ لگا دیا کریں۔

مان میرا احسان

ارے نادان

میں نے تجھ سے کیا ہے پیار

کیا کہا گانا انڈین ہے۔ بھائی اگر دشمن کا ہتھیار اس کے خلاف استعمال کیا جائے تو ان کا مزا ہی اپنا ہے۔

29 اپریل، 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).