صد سالہ اجتماع۔ دیوبندیت کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا مبارک ہو


جے یو آئی کے عالمی اجتماع کو منعقد ہوئے مہینہ بھرہونے کو ہے۔ ویسے تو اس اجتماع پر نقد بھی بہت ہو چکا اور مدح بھی۔ مگر موجودہ ماحول کے تناظر میں یہ اجتماع شاید برسوں زیر بحث رہتے ہیں۔ کیونکہ اس اجتماع کے کچھ واقعات ایسے ہیں، جنہیںآسانی کے ساتھ فراموش کیا جانا ممکن نہیں۔

اجتماع میں بشپ آف پاکستان کی اپنے مذہبی شعار صلیب کے ساتھ سٹیج پر تشریف آوری اور خطاب۔ اور ان شرکائے اجتماع کا ان کے احترام میں کھڑے ہو کر استقبال کرنا، جن کے مسلک پر شدت پسندی اور عدم برداشت کا الزام رہا۔ مولانا محمد احمد لدھیانوی اور علامہ عار ف حسین واحدی کی ایک ہی سٹیج پر موجودگی۔ مولانا فضل الرحمن کہا کرتے تھے، کہ دیوبندیت کسی فرقے کا نہیں، بلکہ استعمار مخالف سیاسی تحریک کا نام ہے۔ اور اس اجتماع کے ذریعے مولانا نے یہ بات عملاً ثابت کر کے دکھا دی۔

دیوبندیت کو اگر بطور مسلک بھی لیا جائے، تب بھی اسے شدت پسند ثابت کرنا ممکن نہ تھا، بشرطیکہ یہ اپنی اصل پر قائم رہتا۔ دیوبندیت دو مختلف فکروں میں س منقسم رہی ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی فکر اور مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کی فکر۔ یہ دونوں فکریں جو کہ سیاسی طور پر بھی مختلف تھیں اور مزاجاً بھی۔ مگر شدت پسند بہرحال نہ تھیں۔ تھانوی فکر اور مزاج خالصتاً خانقاہی اوردرسگاہی ہے۔ اور خانقاہی مزاج ہمیشہ ہی سے داعیانہ رہا ہے نہ کہ شدت پسندانہ۔ یہاں تک کہ یہ مدرسہ فکر سیاسی طور پر بھی عملی سیاست سے دور اور پس پشت رہ کر قومی سیاسی رہنماؤں کی دینی تربیت کرنے کاخواہاں رہا۔

مدنی مدرسہ فکر اگرچہ تحریکی زندگی اور عملی سیاست میں رہتے ہوئے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کی جدوجہد کاقائل ہے۔ مگرطریق جدوجہد میں نہ صرف عدم تشدد بلکہ غیر مسلم ابنائے وطن کے ساتھ عملی اتحاد کا بھی قائل رہا ہے۔ جو مدرسہ فکر غیر مسلم ابنائے وطن کے ساتھ مل کر جدو جہد کا قائل ہو، وہ نظریاتی یا مسلکی اختلافات کی بنیاد پر اپنے برادران مذہب کے لئے عدم برداشت کے مزاج کا حامل کیونکر ہو سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے جید علما بلا تخصیص مسلک مدنی فکر کی حامل جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار اسلام کے مرکزی عہدوں پر رہے۔ یہاں تک کہ مولانا مظہر علی اظہر جیسی اثنا عشری شیعہ شخصیت بھی۔

مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اعتدال پسند اور وسیع المشرب مسلک میں موجودہ شدت پسندی کیسے اور کہاں سے در آئی؟ کالم کی تنگ دامنی اس تفصیل کی متحمل ہے اور نہ ہی میرا آج کا یہ موضوع۔ یہ تفصیل آئندہ کسی نشست پر اٹھا رکھتے ہیں۔ البتہ اتنا عرض ہے کہ، 80کی دہائی میں ریاستی اداروں نے بین الاقوامی سیاسی ضروریات کے تحت دینی نوجوان میں فرقہ وارنہ اور عدم برداشت کے جراثیم انجیکٹ کیے۔

بہرحال مولانا نے اپنے مسلک کو آج ایک بار پھر اپنی اس’’ اصل ‘‘پر کھڑا کر دیا ہے جو نہ صرف دیگر مسالک بلکہ مذاہب کے لئے بھی برداشت، خیر خواہی اور ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ رکھتی ہے۔
اجتماع کے انعقاد پر کتنے ہی اعتراضات تھے، جو مختلف تعصبات کے زیر اثر اٹھائے گئے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ صد سالہ اجتماع میں شریک انسانوں کا بحر بیکراں ان تمام اعتراضات کو بہا لے گیا۔

پورے شد و مد کے ساتھ اٹھایا جانے والا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ جے یو آئی کس جماعت کا تسلسل ہے، جمعیت علمائے ہند کا یا علامہ شبیر احمد عثمانیؒ والی جمعیت علمائے اسلام کا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ موجودہ جے یو آئی ان دونوں ’’جماعتوں ‘‘میں سے کسی ایک کا بھی ’’باقاعدہ تسلسل‘‘ نہیں۔ کیونکہ جمعیت علمائے ہند تقسیم کے ساتھ ہی اپنے تنظیمی ڈھانچے اور ترجیحات سمیت واہگہ باڈر کے اس پار رہ گئی۔ اورباڈر کے اس پار حضرت عثمانی والی جمعیت اپنے قائدین کے غیر سیاسی مزاج کے باعث چل ہی نہ سکی۔ یہاں پھر سوال اٹھتا ہے کہ موجودہ جے یو آئی اگر ان دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کا بھی تسلسل نہیں تو’’ صد سالہ‘‘ کے عنوان سے اجتماع کا انعقاد چہ معنی دارد؟

درحقیقت جے یو آئی تسلسل ہے جمعیت علمائے ہند کے عدم تشدد پہ مبنی طریق جدوجہد کے اس نظریہ کا، جس پر 1338 ھ میں جمعیت علمائے ہند کی بنیاد رکھی گئی۔ تحریک ریشمی رومال کی ناکامی نے حضرت شیح الہند ؒ کو عدم تشدد پہ مبنی طریق جدوجہد کا قائل کیا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ کی اسی فکر ہی کی روشنی میں جمعیت علمائے ہند کی بنیاد رکھی گئی۔ ہندوستان کے جید علما نے بلاکسی مسلکی تقسیم کے شریک ہو کر مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے زیرصدارت جمعیت علمائے ہند قائم کی۔ اور آج 1438 ھ میں اس فکر کے تسلسل کو سو سال مکمل ہو گئے ہیں۔

اگرچہ اس فکری اساس کی جے یو آئی کو بہت بڑی قیمت چکانا پڑی، کہ مفتی حسن جان، مولانا نور محمد، اور مولانا معراج الدین وغیرہ ایسے عظیم لوگوں نے اپنے خون سے اس فکر کی آبیاری کی۔ خود مولانا فضل الرحمن اور مولانا محمد خان شیرانی خود کش حملوں کا نشانہ بنے۔ مگر جے یو آئی اس فکری اثاثہ کو سینے سے لگائے حالات کے تھپیڑوں کے مقابل پوری قوت کے ساتھ کھڑی رہی۔
جب عسکریت پسندی کے ماحول سے دینی خصوصاً دیوبندی نوجوان بری طرح متاثر ہو رہا تھا۔ ایسے وقت میں جے یو آئی ہی تھی، جو آتشیں اسلحہ کے بجائے سیاسی اور جمہوری جماعت کا جھنڈا تھما کر، تبدیلی بذریعہ ووٹ کی بات کرتے ہوئے اس نوجوان کو عسکریت کی گود میں جانے سے روکے ہوئے تھی۔ جے یو آئی کی ملک و قوم کے لئے یہ خدمت اس قدر عظیم ہے کہ اگر اس کے دامن میں اس خدمت کے سوا کچھ بھی نہ ہو تب بھی وہ قابل تعریف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).